سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کا اجلاس، خیبر پختونخوا کے میڈیکل کالجوں میں فاٹا کے طلبہ کا کوٹہ دوگنا کرنے ، زرعی بینک کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کو ریلیف پیکیج دینے سمیت دیگر معاملات زیر غور آئے

80

اسلام آباد،22جنوری  (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین تاج محمد آفریدی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں خیبر پختونخوا کے میڈیکل کالجوں میں سابقہ  فاٹا کے طلبہ کا کوٹہ دوگنا کرنے سمیت آئی ڈی پیز کی موجودہ حالت زار، پولیس کی جانب سے خاصہ دار پولیس فورس کو ضم کرنے، زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کو ریلیف پیکیج دینے کے علاوہ دیگر معاملات زیر غور آئے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج محمد آفریدی  نے کہا کہ  فاٹا کے طلبہ کے حوالے سے  وفاقی کابینہ نے میڈیکل کالجوں میں کوٹہ دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے اس پر نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ پاکستان میڈیکل کمیشن اس سلسلے میں کابینہ کے فیصلے کےمطابق ایک ہی بار نوٹیفیکیشن جاری کرے اور اس سلسلے میں کمیٹی کو بھی آگاہ کیا جائے۔  خیبرپختونخوا کے پولیس حکام نے خاصہ دار  اور لیویز فورس کو ریگولائزیشن کے بارے میں  کمیٹی کو آگاہ کیا ۔ پولیس حکام نے بتایا کہ 29831 آسامیاں منظور شدہ تھیں جو کہ سکروٹنی کمیٹی کو بھیجی گئیں اور پہلے مرحلے میں 22 ہزار کے قریب لوگ ضم ہوئے ، 2 ہزار مزید فیز ٹو میں ضم ہوئے، فیز تھری میں 2  ہزار 9 سو افراد کا پراسس شروع ہے۔ 2489 اسامیاں ایسی تھیں جن پر کوئی سامنے نہیں آیا۔ سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا مئی 2018 سے پہلے خاصہ دار اور لیویز کی جو تعداد تھی اس کو برقرار رکھا جائے ۔ حکام نے بتایا کہ جو بھی خاصہ دار سکرونٹی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا دستاویزی ثبوت بھی پیش کیا ، وہ پولیس میں ضم ہو چکے ہیں۔ حکام نے کمیٹی کو تمام آئینی  اور قانونی پہلووں  سے بھی آگاہ کیا۔  پولیس حکام نے بتایا کہ خاصہ دار اور لیویز کی بہت بڑی تعداد ہے ان کی استعداد کار بڑھانے کے اشد ضرورت ہے۔  سینیٹر ہدایت اللہ اور کمیٹی کے دیگر ارکان نے کہا کہ خاصہ دار اور لیویز کے شہدا کا بھی خاص خیال رکھا جائے اور ان کے خاندانوں کی داد رسی کیلئے مناسب پالیسی اختیار کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ شہدا نے ملک کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی ہیں اور ان کے خاندانوں کی کفالت اور دیکھ بھال ضروری ہے۔ صوبائی حکام نے بتا یا کہ مالاکنڈ میں کم و بیش 1700 افراد لیویز میں تعینات ہیں۔  سینیٹر فدا محمد خان نے جنوبی وزیرستان میں کامران حبیب کی جانب سے ہسپتال بلامعاوضہ زمین دینے کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ کامران حبیب نے اگرچہ ہسپتال کی تعمیر کیلئے مفت زمین دی ہے لیکن اس کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے اورانہیں کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا ہے۔ اب وہ اپنے خرچے پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کمیٹی میں تجویزدی کہ اس مسئلے کا صوبائی حکام ہسپتال کی تعمیر میں مشکلات دور کرنے کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔حکام نے اس امر سے اتفاق کیا کہ مالا کنڈ میں لیویز کو بھی ایک جیسی سہولیات ہونی چاہے اور اس کا حل سیاسی سطح پر نکالنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اس حوالے سے وزیراعلیٰ کو سفارشات بھیجنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ سینیٹر فدا محمد خان نے اہم مسئلے کی نشاندہی کی ہے اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ زرعی بنک کے حکام نے  کمیٹی کو بتایا کہ دو ہفتے کے اندر بنکوں کو نوٹس جاری کر دیا جائے گا اور کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں قبائلی اضلاع کے کسانوں کے قرضے معاف کرانے کیلئے اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے جائیں گے۔ سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا کہ یہ فاٹا کے عوام کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ انہوں نے زیڈ ٹی بی ایل، اسٹیٹ بنک اور دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون شکریہ ادا کیا۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ٹی ڈی پیز کے حوالے سے ہم مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ جن کو چیک نہیں ملے ان کو چیک دیئے جائیں اور جو سروے میں شامل نہیں انہیں سروے میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کافی علاقوں کوسروے میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے سروے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ تیرہ اور دیگر علاقے کے لوگوں کو اپنے علاقوں میں بحال ہونے کی اجازت دی جائے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز محمد ایوب آفریدی، فدا محمد خان، اورنگزیب خان، عثمان خان کاکڑ اور ہدایت اللہ کے علاوہ سیکرٹری سیفران، صوبہ خیبر پختونخوا کے پولیس حکام اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔