اسلام آباد۔26جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بدترین شکست پر بلاول بھٹو اور مریم نواز کو پارٹی عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہئے، ان میں اگر کوئی سیاسی شرم ہے تو شکست کی ذمہ داری قبول کریں اور استعفے دیں، دھاندلی کا رونا رونے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں، نواز شریف کی پاکستان دشمن حمد اللہ محب سے ملاقات اور مریم نواز کے پاکستان مخالف بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، آزاد کشمیر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ کے مترادف ہیں، مریم نواز اور بلاول نے پوری انتخابی مہم میں گالم گلوچ اور قومی اداروں پر تنقید کے سوا کچھ نہیں کیا، کشمیر کے عوام نے ان کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے، 2023ءکے انتخابات میں سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگا، آزاد کشمیر کے عوام نے وزیراعظم عمران خان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے، عمران خان مقبوضہ کشمیر کے عوام میں بھی بے حد مقبول ہیں، ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم کشمیریوں کی مرضی کے خلاف کسی اقدام کے حامی نہیں ہیں، آزاد کشمیر کے صدر، وزیراعظم اور سپیکر کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے آزاد کشمیر الیکشن میں واضح کامیابی پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے کشمیر میں منظم طریقے سے انتخابی مہم چلائی۔ کشمیر کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو بڑی کامیابی ملی، اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی کامیابی کے بعد دھاندلی کا بیانیہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، یہ کامیابی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب آپ لوگوں میں حقیقی طور پر مقبول ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 56 فیصد سے زائد پولنگ ہوئی جو انتخابی عمل پر اعتماد کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے عوام نے تحریک انصاف کو اتنی بڑی کامیابی دے کر مقبوضہ کشمیر کی تحریک کو جلا بخشی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ن لیگ اور پی پی پی کو چاہئے کہ وہ بلاول بھٹو اور مریم نواز سے استعفے لیں، انہیں اگر کوئی سیاسی شرم ہے تو دھاندلی کے الزامات لگانے کی بجائے اپنی شکست تسلیم کریں اور اپنے گریبان میں جھانکیں۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی اور ن لیگ اہم سیاسی جماعتیں ہیں، ان کے اندر نئی لیڈر شپ کو ابھرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ یہ ملک اسی صورت میں آگے بڑھے گا جب سیاسی جماعتیں اسے انسٹی ٹیوشن کے طور پر آگے لے کر چلیں گی۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران ن لیگ کے کیمپ سے ہندوستان سے مدد کے حوالے سے گفتگو ہوئی جو قابل شرم ہے۔ مریم نواز نے فوج اور پاکستان مخالف بیانیہ پر مبنی مہم چلائی جس کی وجہ سے آج بدترین شکست ن لیگ کا مقدر بنی۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ آزاد کشمیر میں حکمران پارٹی تھی اور جس طریقے سے اسے شکست ہوئی ہے، آج تک کسی دوسری پارٹی کو نہیں ہوئی۔ ن لیگ کو پیپلز پارٹی سے بھی کم نشستیں ملی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف نے لندن میں پاکستان مخالف حمد اللہ محب سے ملاقات کی۔ جس طریقے سے نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ چل رہا تھا جس میں فوج اور سیکورٹی اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اس پر انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ حمد اللہ محب پاکستان دشمن اور را کے ایجنٹ ہیں، اس کی نواز شریف سے ملاقات کا جواب کشمیر کے عوام نے انہیں بدترین شکست کی صورت میں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کی سالگرہ پر بلاول بھٹو نے انہیں تحفہ دیا ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس کو ہم چاروں صوبوں کی زنجیر کہتے تھے، وہ پارٹی اتنی سکڑ گئی ہے کہ باقی صوبوں کی طرح کشمیر میں بھی ان کا حال احوال نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ 2023ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا سندھ میں بھی یہی حال ہوگا جو اس کا کشمیر میں ہوا ہے۔ یہ ان کا آخری دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف آپ مودی کو اپنے گھر بلائیں، جندال سے ملاقاتیں کریں اور پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف سازشیں کریں اور اس کے بعد توقع کریں کہ کشمیر کے لوگ انہیں ووٹ دیں گے، اب یہ بیانیہ نہیں چل سکتا۔ کشمیر کے عوام نے عمران خان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان آزاد کشمیر ہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ انہیں کشمیر کے سفیر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے کشمیر کی تحریک کو تقویت دینے کی کوئی کوشش ہاتھ سے نہیں جانے دی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان واحد لیڈر ہیں جنہوں نے کشمیر کے مجاہدین کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز اور بلاول کی تمام گفتگو صرف تنقید اور گالم گلوچ پر رہی جبکہ عمران خان نے کشمیر کی بات کی، آزادی کی بات کی، یہی ان کے اور ہمارے بیانیہ کا فرق تھا جس نے آج تحریک انصاف کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں صدر، وزیراعظم اور سپیکر کے امیدواروں کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان مخالف حمد اللہ محب سے نواز شریف کی ملاقات نہ ہوئی ہوتی تو شاید ن لیگ پی پی پی کے برابر آ جاتی، چونکہ نواز شریف اور مریم نواز نے اینٹی کشمیر بیانیہ کو آگے بڑھایا جس کی وجہ سے کشمیر کے عوام نے انہیں مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دھاندلی کے الزامات ہیں تو یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔ بدترین شکست پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کو پارٹی عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حمد اللہ محب سے نواز شریف کی ملاقات کے حوالے سے تاحال آگاہ نہیں کیا گیا کہ یہ ملاقات پی ایم ایل کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی مرضی سے ہوئی تھی؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ آپ ایک ایسے شخص سے مل رہے ہیں جس کے ”را“ سے رابطے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ احسن اقبال نے ہندوستان سے مدد طلب کرنے کے بیان پر ایک سیاسی یتیم کو نوٹس تو جاری کر دیا لیکن انہیں نواز شریف کو پاکستان دشمن اور ہندوستان کے پروردہ شخص سے ملاقات پر نوٹس جاری کرنا چاہئے۔ ایک اور سوال پر چوہدری فواد حسین نے کہا کہ 5 اگست کے حوالے سے پاکستان کا موقف واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لئے ہماری پہلی شرط ہے کہ بھارت 5 اگست کے غاصبانہ اقدام کو واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں اور اس کا فائدہ دونوں ممالک کے عوام کو ہوگا لیکن اس کے لئے بھارت کو 5 اگست کے غاصبانہ اقدام کو واپس لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کشمیریوں کے لئے چار جنگیں لڑیں، پاکستان کے لوگوں نے کشمیریوں کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ اب بھی ہم نے واضح کیا ہے کہ جب تک بھارت 5 اگست کے اقدام کو واپس نہیں لیتا، ہم ان سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کی پالیسیاں کشمیر کے عوام کے مفاد میں ہیں اور پاکستان کے لئے درست ہیں لہذا جو بھی تنقید کرتے ہیں ان کو کشمیر کے حقائق کا علم ہی نہیں۔ عمران خان کشمیر کے مسئلہ کو انسانی مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ بھارت کشمیر کے علاقے کو اپنے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے، اس کی نظر اس علاقے اور اس کے وسائل پر ہے جبکہ ہماری نظر کشمیر کے وسائل پر نہیں، ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم کشمیریوں کی مرضی کے خلاف کسی اقدام کے حامی نہیں ہیں۔ کشمیر کے لوگ پاکستان کے بارے میں بھی یہی سمجھتے ہیں، ان کے جسم علیحدہ ہوں گے لیکن ہماری روح ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے جب عمران خان بات کرتے ہیں تو وہ اس اعتماد کا اظہار ہے کہ کشمیریوں کو یہ موقع دیں گے کہ وہ کدھر جانا چاہتے ہیں، ہمارا علاقے سے نہیں دلوں سے تعلق ہے، جب دلوں سے تعلق ہوتا ہے تو اعتماد کا تعلق ہوتا ہے۔