اقلیتوں کے تحفظ کیلئے پارلیمانی کمیٹی نے زبردستی مذہب کی تبدیلی کے روک تھام کا بل خارج کردیا،چیئرمین کمیٹی سینیٹر لیاقت خان ترکئی کی زیرصدارت  پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس

6

اسلام آباد،13اکتوبر  (اے پی پی):وزارت پارلیمانی امور،اقلیتی امور اور انسانی حقوق کے آرا کی روشنی میں جبری مذہب کی تبدیلی سے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے پارلیمانی کمیٹی نے زبردستی مذہب کی تبدیلی کے روک تھام کا بل آئین، قانون، اسلام اور موجودہ حالات  کے تناظراورعوام کے وسیع ترمفاد کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے خارج کردیا۔

 کمیٹی نے حکومت کوتجویز دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ قوانین کو مؤثر بنانے اورجبری تبدیل مذہب کے روک تھام کیلئے انتظامی اقدامات اٹھائے۔  جبری تبدیل مذہب سے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس سینیٹر لیاقت خان ترکئی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔کمیٹی کے سینیٹرز اراکین مشتاق احمد،مولوی فیض احمد نے تبدیل مذہب کیلئے 18سال کی عمر کی حد اوربالغ افراد کے تبدیل مذہب کے مجوزہ طریقہ کارپرشدیدتحفظات کا اظہارکیا۔

وزیرمملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے مجوزہ بل کے حوالے سے بتایا کہ سابقہ کمیٹی نے بل کو وزارت مذہبی امورکو بھیجا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ مشاورت کے بعد اس بل کو مذہبی امورکی وزارت نے مستردکردیا جس کے بعد یہ بل واپس کمیٹی کو بھیجا گیا۔ علی محمد خان نے بھی متنازعہ بل کومستردکیا۔ایم این اے رمیش کمار نے بل پر ووٹنگ کا کہا تو علی محمد خان نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جو بھی بل آئین اوراسلام کی روح کے خلاف ہو اس پر ووٹنگ نہیں کرائی جا سکتی۔

سینیٹرز اراکین اور حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھارت اور دیگر ممالک جیسے حالات نہیں پاکستان میں تمام مذاہب کو آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جبری تبدیل مذہب کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اس لئے اس بل کو لانے کی ضرورت ہی نہیں۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس کمیٹی کا نام تبدیل کرکے پارلیمانی کمیٹی فار ویلفیئر آف آل  مینائریٹی ان پاکستان کیا جائے۔

وفاقی وزیربرائے مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا کہ اس بل میں قانون سازی کی ضرورت نہیں بلکہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اس پرعمل درآمد کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بل کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے مشاورت سے ہونا چاہیے۔

وزیرمملکت علی محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں،ان کو اقلیتوں کی بہت فکر ہے۔اس بل پر ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین انوارالحق کاکڑ تھے۔ان ٹی او آرز میں قانون بنانا نہیں بلکہ موجودہ قوانین کو دیکھنا تھا کہ کہیں یہ قانون اقلیتوں کے خلاف تو نہیں،اس کمیٹی کو چلتے رہنا چاہیے تاکہ اقلیتوں کے مسائل کا پتہ چلے۔باہرممالک کی تھپکی کے لیے قانون سازی نہیں کریں گے۔

ایم این اے لال چند نے تجویز دی کہ عمر سے متعلق اور دوسرے متنازعہ شقوں پر بحث کی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی کہ حکومت اپنی طرف سے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے قانون سازی کرائے۔لال چند کی تجویز کے ساتھ کمیٹی کے چیئرمین اوروزیر پارلیمانی امور نے اتفاق کیا۔

سینیٹرمشتاق احمد نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بل کو 43اعتراضات کے ساتھ واپس بھیجا ہے۔بل پرطویل بحث کے بعد چیئرمین کمیٹی نے بل کو خارج اور تجاویزجاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت موجودہ قوانین کو مؤثر بنانے اورجبری تبدیل مذہب کے روک تھام کیلئے انتظامی سطح پراقدامات اٹھائے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں ایم این اے لال چند، سینیٹرمولوی فیض محمد، ایم این اے رمیش کمار، سینیٹر مشتاق احمد، ایم این اے جے پرکاش،سینیٹر دنیش کمار، ایم این اے نوید عامر جیوہ اور ایم این اے کیشو مال کھیل داس کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے۔وزیربرائے مذہبی امور نورالحق قادری، وزیرمملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان اور وزیربرائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور دیگر متعلقہ حکام نے بھی کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔