اکتوبر 27؛ کشمیر کے  یوم سیاہ کا  تاریخی  پس منظر

110

اسلا م آباد، 25 اکتوبر (اے پی پی ):27اکتوبر کا دن ،مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے ‘‘یومِ سیاہ’’کی حیثیت رکھتا ہے یہی وہ دن ہے جس سے ان کی غلامی ،بے کسی اورلا چارگی کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اس دن کو ‘‘یومِ سیاہ’’ کے طور پر مناتے ہیں تا کہ  بھارت کا بدنما اور خون خوار چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہو سکے۔یہ وہ دن ہے جب بھارت نے تمام اخلاقی حدود اور بین الاقوامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے  ہوئے ریاست جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کرلیا۔ظلم اور جبر پر مبنی یہ سلسلہ 70برس گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے ۔مقبوضہ کشمیر پر اپنے ناجائز تسلط کو قائم رکھنے کے لئے بھارت اپنی افواج کے ذریعے ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ذرا اس دن کے پس منظر میں جھانکتے ہیں کہ اس وقت کیا حالات تھے۔3جون 1947ء کو جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشی حقائق کی روشنی میں اپنے عوام کی خواہش کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کرلیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی آبادی 80فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، اس کی سرحدوں کے چھ سو میل مغربی پاکستان کے ساتھ مشترک تھے۔ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گذرتی ہے، بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان کے ذریعے قائم تھا، کشمیر کی تمام درآمدات اور برآمدات کا راستہ بھی پاکستان سے وابستہ تھا۔ ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ایک ایک قدرتی عمل تھا مگر مہاراجہ ہری سنگھ اور کانگریس لیڈروں کے دلی عزائم اس فیصلہ کے بالکل برعکس تھے۔

 اپنے ان مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے سازشوں کا ایسا جال بنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے باشندے آج تک لٹک رہے ہیں۔جب مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق میں پس و پیش کی راہ اپنائی تو کشمیریوں میں مہاراجہ کیخلاف نفرت کا لاوا ابل پڑا۔ کشمیری پہلے ہی مہاراجہ کی ظالمانہ حکومت کے خلاف تھے۔ گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر میں عوامی بغاوت پھوٹ پڑی۔ حریت پسند تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے سرینگر کے قریب بارہ مولا تک جا پہنچے۔ مہاراجہ بھاگ کر مال و اسباب سمیت جموں پہنچ گیا۔ جہاں اس کو کانگریسی رہنماؤں نے ورغلایا تو اس نے بھارت سے فوجیں بھجوانے کی درخواست کر دی اور اس سے الحاق کا اعلان کر دیا جو سراسر تقسیم و آزادی کے اصولوں کے خلاف تھا۔

چنانچہ 27 اکتوبر 1947ء کو برصغیر کی آزادی کے دو ماہ بعد ہی بھارت نے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اپنی فوج اتاری۔جس مجرمانہ جارحیت کے ذریعے بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ جمایا اس حقیقت کو ساری دنیا جانتی ہے۔عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے  آزادانہ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کاوعدہ کیا ، جس کو 70سال گذر جانے کے بعد بھی پورا نہیں کیا جا رہا۔

27 اکتوبر 1947ء کو جس طرح بھارتی غاضب افواج نے کشمیر میں گھس کر وہاں قبضہ کیا وہاں کے عوام کی حق خود ارادیت کو کچل کر انہیں زبردستی بھارت کا غلام بنایا۔ وہاں ظلم و تشدد کا وہ بازار گرم کیا کہ 70 برس گزرنے کے باوجود کشمیر میں موجود 7 لاکھ بھارتی افواج آج بھی کشمیریوں کے دل نہ جیت سکی۔

کشمیری آج بھی 1947ء والے جذبے کے ساتھ اپنا حق خود ارادیت طلب کر رہے ہیں۔ جس کا وعدہ اقوام متحدہ اور بھارت کر چکا ہے اور اپنے اس حق کے لئے 27 اکتوبر 1947ء سے لے کر آج تک ڈیڑھ لاکھ کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 27اکتوبر کو پاکستان ہی نہیں بیرون ملک اور آزاد کشمیر میں بھی لاکھوں کشمیری اس دن کو  بطوریوم سیاہ مناتے ہیں۔