جو لوگ تاریخ جانتے ہیں وہ آگاہ تھے کہ افغان بیرونی تسلط تسلیم نہیں کرتے ، وزیراعظم عمران خان کا ترک ٹی وی کو انٹرویو

16

اسلام آباد۔2اکتوبر  (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان  نے ترک ٹی وی ٹی آر ٹی  کو دیئے گئے  انٹرویو کے دوران  کہا کہ جو لوگ تاریخ جانتے ہیں وہ آگاہ تھے کہ افغان بیرونی تسلط تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ قربانی کے بکروں کی تلاش، امریکی کانگریس کے اجلاسوں میں امریکی سینیٹروں اور قانون سازوں کے امریکی فوج کی اعلی کمان سے سوالات، بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس حوالہ سے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا اور پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کی تجاویز پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم جیسے لوگ جو افغانستان کی تاریخ سے آگاہ ہیں اور افغانستان کی تاریخ کا پاکستان کی تاریخ سے قریبی تعلق ہے۔ پشتونوں کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی تقریبا آدھی آبادی پشتون ہے لیکن اس سے دوگنا زیادہ پشتون پاکستان میں آباد ہیں اور افغان سرحد کے دونوں اطراف پشتون قبیلے آباد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ تاریخ سے واقف ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغان مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں کی عوام کبھی بھی بیرونی طاقتوں کا تسلط تسلیم نہیں کرتی، وہ غیر ملکیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور خاص طور پر غیر مسلم غیر ملکیوں کے خلاف۔ اگر کبھی پشتون قبائل آپس میں لڑ رہے ہوں اور جیسے ہی کوئی غیر ملکی آئے تو وہ متحد ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشتونوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ بدلہ لیتے ہیں اگر کوئی ان کے کسی عزیز کو قتل کرتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لازمی لیتے ہیں اور بدلہ لینے کیلئے وہ مسلح افراد کا ساتھ دیں گے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہی کچھ سرحد کے اس طرف ہواجب ہم نے امریکا کا اتحادی ہونے کا فیصلہ کیا۔ طالبان پشتون تھے تو پاکستان میں مقیم پشتون برادری کی طالبان کے ساتھ ہمدردیاں ان کے مذہبی نظریات کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ ان کی پشتون قومیت کی وجہ سے تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ہم نے پاکستانی طالبان دیکھے، کیونکہ انہوں نے ہمیں امریکیوں کا ساتھی تصور کر لیا اور ہم پر حملے کرنے شروع کر دیئے جو بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہلائے یعنی  پاکستانی طالبان۔ سرحد کی دوسری جانب بھی یہی کچھ ہوا، امریکا کی جانب سے جتنے زیادہ فضائی یا ڈرون حملے ہوئے، رات کی تاریکی میں حملے کئے گئے جس سے افغان عوام نے اتنی ہی بے بسی محسوس کی اور بہت زیادہ لوگ مارے گئے۔ جس کے نتیجہ میں مسلح افراد کی تعداد بڑھتی گئی اور طالبان کی تحریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی گئی۔