اسلام آباد۔2اکتوبر (اے پی پی): وزیرِ اعظم عمران خان نے ترک ٹی وی ٹی آرٹی ورلڈ کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایک وقت تھا جب ہم افغانستان میں خون ریزی کی توقع کر رہے تھے کیونکہ روسیوں کے جانے کے بعد وہاں صورتِ حال خراب ہوئی تھی۔ 1979ء میں افغانستان میں لاکھوں افغان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ جس کے نتیجہ میں طالبان سامنے آئے۔ حال ہی میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے کابل سے انخلاء پر ہم خوفزدہ تھے کہ کابل پر قبضہ کرتے وقت وہاں خون ریزی ہوسکتی ہے مگر غیر متوقع طور پر اختیارات کا بہت پر امن انتقال ہوا، اب افغانستان میں انسانی بحران کا مسئلہ ہے کیونکہ افغان حکومت 70 تا 75 فیصد بجٹ کیلئے بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے، اب لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد بیرونی امداد ختم ہو جائے گی جس سے انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوری طور پراگر افغانستان کو امداد فراہم نہیں کی جاتی تو اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ وہاں افراتفری پیدا ہوگی اور انسانی بحران جنم لے گا۔ وزیر اعظم نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی مدد کی جائے۔بین الاقوامی برادری اور پاکستان کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے سوال پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم افغانستان کے تمام ہمسایوں سے مشاورت کریں گے کہ کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر پاکستان تنہا طالبان کو تسلیم کر بھی لے تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنا، ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکہ، یورپ، چین اور روس بھی ان کی حکومت کو تسلیم کریں تاہم تمام ہمسایہ ممالک مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں کہ کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے تو پاکستان سب کی مشاورت سے ایسا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے یہ ایک مشکل صورتِ حال نہیں ہے کیونکہ جب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک افغان حکومت کے بیرونِ ملک منجمند اثاثے جاری نہیں ہوسکیں گے جو سب سے بڑا سوال ہے۔ امریکہ انہیں کب تسلیم کرتا ہے اور کیا امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ جلد یا بدیر امریکا کو ایسا کو کرنا پڑے گا۔