اسلام آباد۔2اکتوبر (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کو ترک ٹی وی ٹی آر ٹی کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں مگر ہماری قربانیوں کو نظر انداز کرکے الزام تراشی کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اس جنگ کا حصہ بننے پر پاکستان پر بھی اعتراض کیا تھا کیونکہ ہمارا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہ تھا، القاعدہ افغانستان میں تھی۔ پاکستان میں کوئی مسلح طالبان نہ تھے۔ پاکستان کا اس جنگ سے کیا تعلق تھا، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں 80 ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے، ہماری پوری قبائلی پٹی تباہ ہوگئی، 35لاکھ افراد بے گھر ہوئے، ہمیں دنیا کی خطرناک ترین جگہ قرار دیا جاتا رہا اور ہماری معیشت گراوٹ کا شکار ہوئی۔ ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی جنگ کی وجہ سے 2008 میں ہماری کرنسی اپنی آدھی قیمت کھو بیٹھی۔ ہم نے امریکا کی جنگ کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے دی جانے والی قربانیوں پر ہمیں سراہا جاتا لیکن اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کیلئے ہمیں قربانی کا بکرا بنا کر پیش کرنا، ہمارے لئے سب سے تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ جب بھی یہ غصہ ختم ہو گا اور امریکہ کے اندر منطق زور پکڑے گی اور وہ اس جانب منطقی طور پر سوچنا شروع کریں گے کہ پاکستان اس سب کیلئے کیسے ذمہ دار ہو سکتا ہے، یہ کیسے ہوا کہ بہترین اسلحہ سے لیس تین لاکھ افغان فوج نے کیسے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیئے، افغان دنیا کی بہادر ترین اقوام میں سے ایک ہیں۔ وہ کیوں نہیں لڑے یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں تھا۔ یہ سب کیسے ہوا کہ افغان فوج نے ہلکے اسلحہ سے لیس 60 ، ستر ہزار پر مشتمل ملیشیا کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ پاکستان کیسے ان کی مدد کر رہاتھا؟ طالبان کابل کی سڑکوں پر جوتوں کے بغیر موٹر سائیکل چلاتے نظر آئے، اس کا موازنہ افغان آرمی سے کرکے دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ تجزیہ کریں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کا کوئی بھی ذمہ دار ہوسکتا ہے مگر پاکستان نہیں۔