اسلام آباد،06نومبر(اے پی پی):کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں 6 نومبر کو ”یوم شہداء جموں” منایا جا رہا ہے۔ ”یوم شہدا جموں” 1947ء میں جموں اور نواحی علاقوں میں آزادی کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے شہیدوں کی عظیم اور بے مثال قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔اکتوبر اور نومبر1947ء میں جموں اور نواحی علاقوں میں تین لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو محض اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ اپنی تقدیر پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنا چاہتے تھے۔ 1947ء کے شہداء جموں نے نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کی آزادی بلکہ قیام پاکستان کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیااور تاریخ میں امر ہوگئے۔
1947 میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننے سے روکنے اور مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے جموں اور نواحی علاقوں میں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ڈوگرہ فوج اور ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ”یوم شہداء جموں” بھرپور عقیدت اور اس عزم کے ساتھ منایا جارہا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس موقع پر آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ دنیا کے مختلف شہروں میں آباد کشمیریوں کی طرف سے جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کر کے نظریہ پاکستان اور کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے شہیدوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اور ہندو انتہا پسندوں کی باہم سازش کے بعد جموں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مختلف مقامات پر لے جا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔ جموں اور اس کے نواحی علاقوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ جو لوگ پاکستان جاناچاہتے ہیں وہ جموں کے پریڈ گرائونڈ میں جمع ہوجائیں جہاں سے انہیں پاکستان بھیجا جائے گا۔ 20اکتوبر 1947ء کو ان میں سے 8 ہزار مسلمانوں کو جموں کے علاقے مالا ٹانک میں شہید کیا گیا۔ 22 اکتوبر کو جموں کے علاقے ثانیا میں 14ہزار جبکہ اکھنور کے پل پر 15ہزار مسلمان شہیدکردیئے گئے۔
جموں اور دیگر علاقوں سے 5 اور 6 نومبر 1947ء کو ایک سو سے زائد گاڑیوں پر ہزاروں لوگوں کو اس بہانے سوار کیا گیا کہ انہیں پاکستان لے جایا جائے گا لیکن پاکستان پہنچانے کے بجائے ان بے بس مسلمانوں کو کٹھوعہ کے جنگلات میں لے جاکر قتل کردیا گیا۔اس دوران بھارتی افواج نے کشمیر پر قبضہ کرلیا اور ان کی موجودگی میں جموں کے علاقوں میران صاحب اور رنبیر سنگھ پورہ میں 25 ہزار مسلمان بے دردی سے شہید کئے گئے۔
”لندن ٹائمز” نے کشمیر میں ہونے والے اس قتل عام کے بارے میں کئی رپورٹیں شائع کیں۔ اکتوبر 1947میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی نگرانی میں 2 لاکھ 37ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ تاریخی واقعات سے یہ واضح ہے کہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ایک منظم منصوبہ بندی سے مہاراجہ ہری سنگھ کی سرپرستی میں کیا گیا۔ اس منظم قتل عام کا آغاز ستمبر 1947 میں ہوا اور قبائلیوں کے کشمیر میں آنے سے کافی عرصہ قبل شروع ہوچکا تھا۔ جموں میں اکتوبر اور نومبر1947 میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں 123 دیہات کو مکمل طور پر ختم کیا گیا۔ بھارتی انتہا پسند تنظیموں جن میں آر ایس ایس بھی شامل ہے، نے ہندو بلوائیوں کی مکمل پشت پناہی کی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا تھا۔
بھارت میں مودی حکومت کی سرپرستی میں ہندوتوا کے پیروکار ظلم وستم کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کا بھارتی اقدام اس کی تازہ ترین کڑی ہے جس کا مقصد کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر میں رائے شماری کے حق میں متعدد قراردادیں پاس کی ہیں۔ ان قرار دادوں پر بھارت نے کبھی عملدرآمد نہیں ہونے دیا اور اس طرح تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کے حل طلب ایجنڈے میں بدستور موجود ہے۔
بھارت کی جانب سے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کو اس ضمن میں ایک ڈوزیئر بھی پیش کیا ہے۔ ڈوزیئر میں عالمی ادارہ کی توجہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور مقبوضہ علاقہ کی سنگین صورتحال کی جانب مبذول کرائی گئی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی دراصل تحریک تکمیل پاکستان ہے جس کیلئے کشمیریوں نے لاکھوں قربانیاں پیش کی ہیں۔