مدینہ کا معاشرہ علم کی بنیاد پر تشکیل کردہ روشن خیال معاشرہ تھا ؛  قومی رحمت للہ العالمین اتھارٹی کے زیر اہتمام  آن لائن مکالمہ  میں گفتگو

55

اسلام آباد، یکم جنوری  (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قانون کی حاکمیت کے حامل معاشرے پھلتے پھولتے ہیں ، جو بھی انسانی معاشرہ نبیۖ ﷺکی سیرت اور کردار کی پیروی کرے گا وہ عروج پائے گا  جبکہ عالمی اسلامی دانشوروں نے کہا ہے کہ اسلامی معاشرے کے احیاء کیلئے ہمیں اسوہ حسنہۖ کی پیروی کرنا ہوگی، کردار سازی ، عدل ،انصاف اور اخلاق ہماری تعلیم کا اہم جز ہونا چاہئیں ، سیرت النبیۖ ﷺہمارے نظام تعلیم کے ضابطہ اخلاق ہونا چاہئیں، ریاست ایک طاقت ہے اور اسی طاقت کے تابع سنت زندہ رہتی ہے ، مدینہ کا معاشرہ علم کی بنیاد پر تشکیل کردہ روشن خیال معاشرہ تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کو قومی رحمت للہ العالمین اتھارٹی کے زیر اہتمام ریاست مدینہ ، اسلام ، معاشرہ اور اخلاقی بیداری کے موضوع پر  آن لائن مکالمہ کی میزبانی کی ، سیمینار سے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکا کے اسلامک سٹیڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر سید حسین نصر ، زیتونا کالج امریکا کے صدر ڈاکٹر حمزہ یوسف ، کیمبرج مسلم کالج  برطانیہ کے ڈین ڈاکٹر عبدالحکیم ، ملائیشیاء سے تعلق رکھنے والے مفکر ڈاکٹر چندرا مظفر، ڈاکٹر عثمان باقر ، ابن خلدون یونیورسٹی ترکی کے ریکٹر ڈاکٹر رجب شنتک ، متحدہ عرب امارات کی فتوا کونسل کے چیئرمین عبداللہ بایا نے بھی خطاب کیا۔

 وزیر اعظم عمران خان نے سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے تمام شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سیمینار میں شریک اسلامی سکالرز سے صرف ایک بنیادی سوال پوچھنا ہے جو مسلم دنیا کے نوجوانوں کیلئے اہمیت کا حامل ہے، وہ سوال یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ۖﷺ نے مدینہ تشریف لانے سے اپنے وصال تک کے دس سالوں میں ایسا کیا کیا جس نے ان لوگوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا ، جن لوگوں کی دنیا میں کوئی اہمیت ہی نہ تھی وہی لوگ دنیا کے رہبر بن گئے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکا کے اسلامک سٹیڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر سید حسن نصر نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سوال کے انتخاب پر انہیں خوشی ہوئی ، کیونکہ گذشتہ صدی کے دوران اسلامی دنیا میں کچھ ایسے رجحانات نے جنم لیا جنہوں نے پیغمبر ۖﷺ اور بذات خود اسلام کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہم نے دیکھا کے اس کیلئے متعدد ممالک میں کئی طریقے اپنائے گئے ، بہت سی تحریکیں چلیں، اس لیے توجہ دینا بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو اللہ سے محبت کرے اور اللہ اس سے محبت نہیں کرتا جو اپنے نبیۖ سے محبت نہیں کرتا ۔ پس عشق رسول ﷺ جو ان کی تعظیم کی بنیاد ہے اور ان کا اسوہ دین اسلام کی بنیاد ہے ۔انہوں نے کہا کہ قرآن مجید نبیۖ کے بارے میں واضح طور پر بیان کرتا ہے آپ کے پاس اسوہ حسنہ بہترین مثال ہے اور زندگی میں پیروی کرنے کیلئے بہترین نمونہ ہے لہذا کوئی بھی مسلمان جو اللہ پرایمان رکھتا ہے اسے یقینا قرآن کی اس بات پر عمل کرنا چاہئے اور نبیۖ کے اسوہ کی پیروی کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرہ کے احیاء کیلئے ہمیں اسوہ نبیۖ کی پیروی کی طرف واپس جانا ہوگا جو پہلی صدی کے مسلمانوں کی ہر نسل نے کیا۔

 انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ موقع میسر نہیں ہے کہ اپنے گھر سے باہر نکلیں اور ہمیں پیغمبرۖﷺ کا دیدار نصیب ہو ، ہم ان کے بارے میں پڑھتے ہیں ، ہم میں چند ایک خوش نصیبوں کو خواب میں  نبی کریم ﷺ زیارت نصیب ہوتی ہے۔ ہم  آپ ؐ  نعتیں پڑھتے ہیں ،  آپ ؐ کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں،اللہ کے نبیۖﷺ کو اپنے حجرہ سے باہر آتے مسجد میں جاتے ، گلی میں چلتے پھرتے، بازار میں دیکھنا ، ان سے بات کرنا ، یہ ہمارے لیے ناقابل تصور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر مذہب میں اللہ اس مذہب کے بانی کے ارد گرد چند ممتاز شخصیات کو جمع کر دیتا ہے جن کا انتخاب وہ خود کرتا ہے جو اس بانی کے پیغام کو آگے لیکر چلتے ہیں ، یہ کوئی عام صورتحال نہیں ہوتی ، روحانیت کے چند اثار ہماری دنیا پر آشکار ہوتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ کے ماننے والے جو کردار عیسائیت میں ادا کرتے ہیں وہی کردار بدھ مت کے ابتدائی پیروکار بدھ مت میں ادا کرتے ہیں ، اسی طرح اسلام میں بھی یہ سب سادہ مزاج صحرائی عرب سے یہ وہ لوگ تھے جن کا دل اتنا پاکیزہ تھا کہ اسلام کے پیغام نے  انہیں یکسر بدل دیا اور وہ اس کیلئے سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوگئے۔ وہ کوئی بہت بڑے دانشور نہیں تھے، ان میں سلمان فارسی ، بلال حبشی جیسے چند لوگ دوسری تہذیبوں سے آئے ،لیکن ان میں زیادہ تر سادہ مزاج عرب تھے تاہم اللہ نے انہیں ایک کام کیلئے منتخب کیا اور انہوں نے اپنی فطرت کو اس قابل بنایا کہ وہ نبیۖ کے پیغام کو اپنے اندر سمو سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اکیسویں صدی کے مسلمان  پہلی بار قران کی کوئی آیت رسول ۖ کے منہ سے سننے کا تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن ان لوگوں کی قسمت میں ایسا سننا لکھا تھا ، نہ صرف مدنی دور بلکہ مکی دور بھی انتہائی اہم ہے ، وہ صرف ایک چھوٹا سا گروہ تھے ، یہی وہ نو زائیدہ طبقہ تھا جو اس کے بعد مدینہ میں پھلا پھولا ، نبیۖ کی زندگی کے دونوں ادوار میں انہوں نے جو کیا وہ بہت اہم تھا کہ نہ صرف وہ خدا کا پیغام پیش کرنے کے قابل ہوئے بلکہ انہیں ایسے سامعین ملے جو ان کی جانب کھینچے چلے آئے جو اس پیغام کیلئے اپنی جانیں دیتے تھے، جنہوں نے اپنی سوچ اس پیغام کے حوالہ کر دی ، جنہوں نے اپنا انداز تکلم بدلا ، اپنا طرز فکر بدلا ، جنہوں نے دنیاوی عیش و عشرت میں غرق اس معاشرے کے طور طریقوں اور تصور زندگی کو  بدل ڈالا وہ یک لخت ملت اسلامیہ کی پہلی نسل بن گئی ۔ انہوں نے کہا کہ نبیۖ نے فرمایا کہ یہ میری امت کی بہترین نسل ہے اور یقینا ہم ہمیشہ ان کی مثالیں دیتے ہیں ، ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم نے موجودہ صورتحال کو سمجھنا ہے ۔

 انہوں نے کہا کہ جس حقیقت سے ہم رجوع کرسکتے ہیں وہ تاریخ کے کسی خاص لمحہ میں اللہ کی موجودگی ہے، جو ایسے واقعات کی تخلیق کرتی ہے جو ابدی ہوتے ہیں۔ نبیۖ ﷺجب گھرمیں داخل ہوتے تھے تو پہلے دائیاں پائوں اندر رکھتے تھے اور اسلام علیکم کہتے تھے جو ہم آج بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جو ہمارے کردار کی تشکیل کرتا ہے جو ہماری سوچ کارخ متعین کرتا ہے جو ہمارے ذہن کو وسعت دیتا ہے جوہمارا طرز عمل ہوتا ہے ، سب سے اہم یہ ہے ہم اپنے خالق کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اپنے اللہ ، اپنی تخلیق ، انسانیت باقی دنیا اور فطرت کے متعلق ہمارا طرز عمل کیا ہے ، یہ سب کچھ انسانی تاریخ کسی خاص لمحہ میں اللہ کے پیغمبرۖ نے طے کر دیا تھا جو ہمارے لیے اسلامی وحی سے شروع اور خاص طور پر مدینہ کی تکمیل سے عروج پاتا ہے، اس لیے کہ مکہ میں آپ ؐکے پیروکاروں کی تعداد بہت کم تھی۔

انہوں نے کہا کہ مدینہ وہ پہلا اسلامی معاشرہ ہے جہاں پہلی بارنبیۖ کی تعلیمات جو آج تک جاری ہیں کو سانچے میں ڈھالہ گیا وہ ہمیشہ ایک آئیڈیل رہے ہیں ، اور اس کی تاریخ مدینہ کے ابتدائی معاشرہ تک جاتی ہے۔ انہوں نے کہا  کہ  مدینہ میں جہاں پہلا اسلامی معاشرہ قائم ہوا تھا اور جب تک اسلام موجود ہے ، جو دنیا کے خاتمہ تک بلاشبہ موجود رہے گا وہی دور ہمارے لیے مثالی رہے گا ، ہمیں اسی دور سے سیکھنا ہے اور ہمیں اس سے ان معاملات میں نہیں سکھنا جو بدل چکے ، جیسا کے بس یا ٹرین میں کیسے چڑھا جاتا ہے  بلکہ ہمیں روحانی ، اخلاقی روئیوں اور عقل و دانش کی بابت سیکھنا ہے ، جو در حقیقت فطرت کی سچائی کے بارے میں ہمارے نظریہ کا تعین کرتا ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ انہوں نے کہا کہ ارتقاء اور جدیدیت کی نشرونما میں فروع کے بارے میں جو باتیں ہم کرتے ہیں وہ سب سطحی ہیں۔

وزیر اعظم نے ڈاکٹر حمزہ یوسف سے سوال کیا کہ مسلم ممالک میں ایسے ملک ہیں جو سب سے زیادہ بدعنوان سمجھے جاتے ہیں ہم نبیﷺۖ کے پیروکار ہیں 622عیسویں سے 632عیسویں تک کیا نبی ۖ ﷺنے اس معاشرے کی اخلاقیات اور معاملات کے معیارات کی سطح کو بلند کیا ، جس کے بعد وہ عظیم قوم بنے اور کیا یہ ممکن ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک خاص معیار کی اخلاقیات موجود نہیں تو کیا معاشرہ انصاف کو فروغ دے سکتا ہے ، کیونکہ عالمی سیاست کے اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف اور قانون کی حکمرانی ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہے ، اس کے جواب میں  زیتونا کالج امریکا کے صدر ڈاکٹر حمزہ یوسف نے کہا کہ اخلاق یا معاشرہ کی اخلاقیات کے لہذا سے میں یہ کہوں گا کہ یہ کیسی خلاء میں نمودار نہیں ہوتے ، اسلام سے پہلے عرب اخلاقیات کے بہت اعلیٰ تصورات کے مالک تھے، سچائی اور سخاوت  ان کیلئے بہت اہم تھی ، دیانتداری پر عرب فخر کرتے تھے ، وہ جھوٹ برداشت نہیں کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے فقط اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے ، ان میں کردار کے وجود کی سوچ موجود تھی لیکن ان کا کردار بگڑ چکا تھا وہ تکبر اور مغرور تھے ۔ان کے کردار میں خامیاں تھیں ، یہ وہ شعبے تھے جن پر نبیﷺ ۖ نے توجہ مرکوز کی ، نبیۖ ﷺدر حقیقت دلوں کے طبیب تھے ، قرآن کہتا ہے کہ نبیۖ ﷺآپ ہی میں سے تھے ، تمارا مشقت میں پڑنا نبیۖﷺ کیلئے گراں ہے ۔ اصحاب رسول نبیۖ ﷺکے شاگرد نہیں بلکہ ان کے صحابہ تھے ، انہیں پیروکار نہیں کہا جاتا ۔ انہوں نے کہاکہ قرآن نے اخوت کا یہ تصور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے، ہر ثقافت اور معاشرہ حتیٰ کہ جن معاشروں میں بعض شعبوں میں بد عنوانی ہے ان کے دوسرے پہلو بہت اچھے ہیں جیسا کہ کچھ بد عنوان مسلم ممالک میں اب بھی بہت مضبوط خاندانی اقدار ہیں، ان میں عزت و تکریم جیسے معاملات میں کافی فکر مندی پائی جاتی ہے ، خاندان میں ضرورت مندوں کاخیال رکھے جانے جیسی چیزیں اچھی ہیں، یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن پر توجہ مرکوز اور زور دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی معاشرے کو دیکھتے وقت آپ کو ان چیزوں کو دیکھنا ہوگا جو کام کر رہی اور صحت مند ہیں اور جو کام نہیں کر رہیں ان کا علاج بیماری کی طرح کرنا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ بہت سارے جدت پسند مسلمانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ انجینئروںکی طرح سوچنے کا رجحان رکھتے ہیں، مسائل کے فوری حل کی سوچ رکھتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس کو دیکھنے کا ایک زیادہ مفید اور موثر طریقہ قرآنی طریقہ ہے ، جس میں بیماریوں کے تصور کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی موجود ہے۔ بیماریوں اور علاج میں وقت لگتا ہے ، بیماری کی تشخص اور اس کے علاج میں وقت لگتا ہے، یہ بہت اہم ہے لیکن ہمیں جس اہم چیز کی ضرورت ہے وہ طبیب ہیں، اخلاقیات کے حصول اور اچھا طرز عمل معاشرے کیلئے طبیب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سب سے پہلے مجسمہ اخلاق ہوں ، زمانہ جدید سے قبل کے لوگ، طاقت کے حامل، اقتدار میں رہنے والے اور معاشرے کی رہنمائی کرنے والے دانشوروں کو زبردست ذاتی نظم و ضبط کا حامل ہونا چاہئے ، اگر وہ ان طور طریقوں کو نہیں اپناتے جو دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھربات بنتی نہیں ، انہوں نے کہاکہ جہاں تک اخلاقیات کی بات ہے تو معاشروں میں ہمیشہ اخلاقی بنیادیں ہوتی ہیں، اخلاق ہماری فطر کا حصہ ہے  جو لفظ خلق سے نکلا ہے یہ ہمارے کردار کا حصہ ہے ۔

 اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 622سے 631عیسویں کے درمیان جو تبدیلی آئی میں چاہتا ہوں  کہ  ہمارے نوجوان اس کو سمجھیں کہ کیسے انہوں نے کردار بدل ڈالے، مجھ پر یہ عقدہ کھولا ہے میرے معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو ہمارے نبیۖ ﷺسے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں اوران کیلئے جان دے دیں گے ۔ ہمارے معاشرے میں کچھ خاصیتیں جیسے پاکستان کے لوگ سب سے زیادہ سخی ہیں ۔ میں ہسپتالوں اور خیراتی کام کیلئے اس ملک میں شاہد سب سے زیادہ رقم جمع کرتا ہوں لیکن کسی نہ کسی طرح معاشرہ عمومی اخلاقیات کے معاملے میں ناکام ہوا ہے ۔ لوگوں کو بدعنوانی سے روکنے میں اور رشوت لینے سے روکنے میں ناکام ہوا ، ہم نبیﷺ کی زندگی کو معاشرے میں اخلاقیات اور طرز عمل کا معیار بلند کرنے کیلئے کیسے استعمال کریں۔

 اس کے جواب میں کیمبرج مسلم کالج  برطانیہ کے ڈین ڈاکٹر عبدالحکیم  نے کہا کہ یہ ایک اچھا سوال ہے ۔ اسلام کے ظہور سے ہونے والے غیر معمولی معجزے کے سیاق و سباق کے تناظر میں پوچھا جا رہا ہے، اسلام کی ابتداء اخلاقیات کے کسی تبلیغی احیاء کا نتیجہ نہیں تھا اگرچہ اخلاقیات کا احیاء غیر معمولی تھا تاہم ایک نئے قسم کا روحانی انقلاب وقوع پذیر کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ نئے مسلمانوں کے سیکھانے کیلئے کیمبرج یونیورسٹی کے اسلام قبول کرنے والے گروہوں میں نئے مسلمانوں کو سیکھانے کیلئے سب سے موثر تحریر سیرت النبیۖ ہے ۔ وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے وہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی سیکھ رہے ہیں۔ سیرت النبیۖ کے واقعات ہر ہفتے غیر معمولی انداز میں انہیں تبدیل کرتے اور ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں ، انہوں نے  کہا کہ الازہر یونیورسٹی  میں میری کلاس کے طالبعلم اکثر یہ کہتے تھے ہم سیرت النبیۖ کی کلاس کو کسی دوسری جماعت پر ترجیح دیتے ہیں ۔

 انہوں نے کہا کہ میرے تجربہ کے مطابق بہترین خطبہ ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو حضورۖ ﷺکی زندگی کے واقعات بیان کرتا ہے۔لوگ مساجد میں احترام سے یہ خطبہ سنتے ہیں جو غیر معمولی بات ہے ۔  ۔ انہوں نے کہا کہ درگزر ایک ایسا وصف ہے جو لوگوں  کوبدل دیتا ہے ، انہوں نے کہا کہ اسلامی ادب کے سبھی عظیم  شاہکاروں میں نبیۖ ﷺکی محبت ہمارے لیے طاقت کا ذریعہ ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہے  ، حضورۖ معراج سے واپس آئے تو وہ لوگوں کی مدد کرناچاہتے تھے، یہی ان کا مشن تھا ، وہ ہمارے مسائل حل کرنا چاہتے تھے ، انہوں نے کہا کہ  مجھے یہ لگتا ہے یہی ہمارے کیمیاوی حساب میں گمشدہ  عنصر ہے ، ہم نے محبت کے اس اصول کو کھو دیا ہے ، ہم نے اسے لگی لپٹی چیزوں میں تبدیل کردیا ہے ، جسے دیکھ کر ہم نے نعرے لگا  ئے  لیکن ایک دوسرے کے ساتھ وہ برتائو کیا جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے پیغمبرۖ ؐکا فرمان ہے کہ تم سے پہلے کئی اقوام تباہ کر دی گئیں،کیونکہ ان کے ہاں طاقت ور کیلئے الگ  اور کمزور کیلئے الگ قانون تھا اور یہ کہ اگر ان کی بیٹی کسی جرم کی مرتکب ہوئی تو اس کو بھی سزا دی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں ان کا زور قانون کی حکمرانی پر تھا جس پر ریاست مدینہ میں سختی سے عمل ہوتا تھا ، وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کے حوالہ سے ان کا تجربہ یہ ہے کہ صرف وہی معاشرے پھلتے پھولتے ہیں جہاں قانون کی حاکمیت ہو ، وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں حضورۖ ؐکیونکہ رحمت للہ العالمین ہیں اس لیے جو بھی انسانی معاشرہ ان کی سیرت اور کردار کی پیروی کرے گا وہ پھلے پھولے گا ۔ جیسا کہ مدینہ کی سیاست دنیا کی عظیم تہذیبوں میں سے ایک کا مرکز بن گئی ۔

 انہوں نے سوال کیا کہ اس میں کوئی ربط ہے کہ اگر کسی معاشرے میں مخصوص اخلاقی معیارات اور ضابطہ اخلاق نہ ہو تو کیا وہ معاشرہ انصاف فراہم کرسکتا ہے۔ اس کے جواب میں ملائیشیاء سے تعلق رکھنے والے مفکر ڈاکٹر چندرا مظفر نے کہا کہ قانون کی حاکمیت کا سوال بہت اہم ہے ، موجودہ دنیا میں یہ ایک بڑا چیلنج ہے مسلم معاشروں میں ناقدین صیح یا غلط طور پر انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں ، قانون کی حاکمیت لاگو کرنے کی صلاحیت نہ ہونا اس انداز میں کہ انسانی وقار کے مطابق انصاف کی عمل داری ہو ، یہی عدم قابلیت مسلم معاشرے کی کمزوری قرار دی جا رہی ہے، جس چیلنج کی وزیر  اعظم نے درست نشاندہی کی ہے اس کا ہمیں سامنا ہے، یہ مسئلہ غور طلب ہے جسے ہم حل نہیں کر سکے ، وہ مسئلہ انسان میں روحانی تبدیلی لانے کا ہے، معاشرے کی روحانی جہت کے بارے میں جسے بہت کم وقت میں وہ اس پیغام کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ،وہ بہت گہرا پیغام تھا ، وہ باہمی تعلقات میں اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہوئے  تاہم  اسی  معاشرے کو نبی ۖ کے وصال کے بعد اسے کئی چیلنجوں کا سامنا کرناپڑا۔ ڈھانچے کی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے ، یہ ایک مشکل چیلنج اس لیے ہے کہ ذاتی مفادات ہمیشہ سے طاقتور رہے ہیں، ہمیں نبیۖ کی مثالیں دینے سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے ، وہ اپنے دور میں تو اس تبدیلی کو دیکھ پائے ۔

 انہوں نے کہا کہ نسل درنسل اخلاقی عزم کا تسلسل برقرار رکھنا ایک مسئلہ کیوں ہے، ملائیشیاء میں 30یا 40سال تک اپنے کردار کے حوالہ سے لوگ انفرادی طور پر بہت زبردست تھے ، انہوں نے کافی عرصہ اسے برقرار رکھا تاہم جب ان کا کردار کمزور ہونا شروع ہوا تو دولت کی فروانی آسائشوں کی وجہ سے وہ مضبوط سوچ زوال پذیر ہونا شروع ہوئی ، چند نسلوں کے بعد تبدیلی ہونا شروع ہوگئی ، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیں گہری توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے ۔تعلیم کو کیسے اس انداز میں ڈھالا جائے کہ ہم مخصوص اقدار کا تسلسل کیسے برقرار رکھیں ، جو ڈھانچے پراثر انداز ہو اور اسے بدل کر رکھ دیں۔

 وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے ایک عظیم دانشور ڈاکٹر اشفاق احمد نے انہیں بتایا کہ 50کی دہائی میں جب وہ چیئرمین مائو سے ملے تو وہ ان سے کافی متاثر تھے ، پرانے غلام ممالک ان رہنمائوں کی طرف دیکھتے تھے جنہوں نے اپنے ملکوں کی آزادی کی جنگیں لڑیں ، چیئرمین مائو نے انہیں کہا کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے ، انہوں نے اپنی بات کی وضاحت میں چین کے پاکستان میں سفیر کے برج کھیلنے والے ایک ساتھی کا واقع سنایا جو گرمی میں پسینہ سے شرابور تھا ، وہ اپنے سر پر پانی ڈالتااور پھر برج کھیلتا ، چینی سفیر کے پوچھنے پر اس پاکستانی نے بتا یا کہ وہ روزہ کی حالت میں ہے ، چینی سفیر نے پاکستانی سے کہا کہ پانی کا ایک گھونٹ کیوں نہیں پی سکتے تو اس کا جو جواب تھا اس  سے میں یہ نتیجہ نکال سکتا ہوں کہ یہ ایک عظیم ملک ہے اور ان لوگوں کا ملک ہے جو کسی بالاتر قوت کو جواب دہ  ہیں ،ایسے لوگ ہمیشہ ایماندار بھی ہوں گے ، اپنے ٹیکس بھی دیتے ہوں گے ، ایسا معاشرہ بہت طاقتور ہوگا۔

 وزیر  اعظم نے کہا کہ مدینہ میں لوگوں کا کر دار بلند اور روحانی کایا پلٹی گئی مگر اس کے ذریعے ان کے کردار بدلے گئے اور اسی چیز نہیں انہیں غیر اہم لوگوں سے اٹھا کر  عالمی رہنمائوں کے منصب پر پہنچا دیا ، اس کے جواب میں ملائیشیاء کی یونیورسٹی آف ملایا  کے پروفیسر  ڈاکٹر عثمان باقر نے کہا کہ پیغمؐبر ۖ نے وہ بنیاد رکھی جس نے مدینہ میں کامیابی اور کامرانی کی ضمانت دی ، سیرت النبؐیۖ ہمارے نظام تعلی کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ سنت میں نبؐی ۖ کی زندگی کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلو شامل ہیں، مدینہ کا معاشرہ علم کی بنیاد پر روشن خیال تھا، ہمیں روشن خیال رہنمائوں اور پیروکاروں کی ضرورت ہے،انہوں نے کہا کہ اخلاقی اور سیاسی نظام کی بنیاد روحانی اور اخلاقی نظام کے ساتھ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی اسلامی تہذیب کی بنیاد مدینہ میں رکھی گئی تھی ، اس بنیاد نے مدینہ میں کامیابی در کامیابی کی ضمانت دی ۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے اہم سوال اس وقت یہ ہے کہ نبیۖ نے اپنے صحابہ کو اپنے پیروکاروں اور بعد ازاں مدینہ میں کس قسم کی تعلیم و تربیت دی، انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے آج بھی ویسی ہی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیرت النبیۖؐ کی تعلیمات نوجوانوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مدینہ کا معاشرہ علم کی بنیاد پرتشکیل کردہ روشن خیال معاشرہ تھا ، وہ نبیۖ کی روشن خیال اور درد مند سربراہی میں قائم کیا گیا ایک معاشرہ تھا۔ ہمیں نبؐیۖ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ، نبیۖؐ کے پیروکار ایک مشترکہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، یک جان امت کا تصور بہترین معاشرے کا تصور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نبیؐۖ ہمارے لیے رول ماڈل  ہیں ، ہمیں ان کی سیرت کی مختلف زبانوں میں تشریح کی ضرورت ہے ، سب کیلئے ہر طرح کی تعلیم کا تصور نبؐی ۖ نے اپنے پیروکاروں کو دیا ، عمومی لہذا سے گود سے لیکر گوہر تک  اور خصوصی لہذا سے علم حاصل کرو چاہئے چین جتنی دور سرزمین سے ملے اور پھر کردار سازی ، عدل و انصاف اور اخلاق ہماری تعلیم کا اہم جز ہونا چاہئے اور سب سے اہم ایمان اور علم کا اکھٹا ہونا ہے ۔ جیسے پرانے دور کے مسلمان ان دونوں کو ساتھ لیکرچلتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس امہ کا احیاء کیسے ہو جو کہ سنت رسولۖؐ کی مظہر ہو ۔

 وزیر اعظم عمران خان  کے سوال پر  ابن خلدون یونیورسٹی ترکی کے ریکٹر ڈاکٹر رجب شنتک نے کہا کہ عملی زندگی سے متعلق موضوعات پر ہمیں اکھٹا ہونے کا موقع کم ملتا ہے ، ریاست کامقصد یہ ہے کہ وہ سنت رسولۖؐ کو زندہ رکھنا یقینی بنائے کیونکہ نبی ۖ ؐکی سنت کسی ایک ذات کیلئے نہیں بلکہ معاشرے کیلئے تھی ۔ یہ ریاست کی سطح اور ساری دنیا کیلئے تھی ، ابن خلدون کہتے ہیں کہ ریاست کے پاس طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت معاشرے میں سنت رائج کرنے کیلئے استعمال کی جانی چاہئے تاکہ نبیۖ کی سنت قائم رہے ، انہوں نے سنت کو سیاست قرار دیتے ہوئے اسے گورننس ، سیاسی ، انتظام و انصرام ، سیاسی نظام قرار دیا ۔  ابن خلدون  کے نزدیک سنت بہت منفرد ہے ، نبی ۖ ؐ لوگوں کے درمیان رہ کر ریاست کا انتظام انصرام سنبھالے ہوئے تھے ۔ یہ ہمارے لیے بہت اہم  ہے کہ  ہم آج اس کی جانب رجوع کریں ، یہ ہمارے لیے بہت اہم سبق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج اس اخلاقی نظام میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جن کی مرمت کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، ہمارے پاس اخلاقیات کا ایک مضبوط نظام موجود ہے ، ہمارے مسائل اور بیماریوں کی دوا سنت رسولۖؐ میں ہے،انہوں نے کہا کہ سیرت کیساتھ تعلق ہمارے وجود کا ہے، ہم اسے دنیا کی کسی دوسری عظیم شخصیت کی تاریخ کے طور پر نہیں پڑھتے ، قرآن اور سنت نہ صرف ہمارے لیے علم کا ایک ذریعہ ہیں بلکہ ہمارے لیے ہمارے وجود کا ذریعہ ہیں۔ نبیۖ  کریم ؐنے مدینہ میں جو کیا اس کا جواب ہمیں قرآن میں ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں تعلیم و تذکیہ دیا ، وہ انہیں دنیاوی معاملات میں منتطقی علم فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں روحانی اور اخلاقی پاکیزگی بھی عطا کرتے ہیں ، یہی وہ چیز ہے جسے آج ہمیں دوبارہ ہمیں اپنی زندگیوں میں لانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اپنا پورا دھیان تعلیم پر دینے کی ضرورت ہے ، ہم نے اپنے نظام تعلیم میں سے تذکیہ ، روحانی و اخلاقی تربیت والا حصہ چھوڑ دیا ، یہ وہ سبق ہے جو ہمیں نبیؐۖ کی مدینہ کی زندگی سے سیکھنا ہوگا۔ نبیۖؐ نے مدینہ میں مستقبل کا عالمی تصور دیا ، وہ عالمی تصور ابھی حقیقت بننا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے معاشروں میں آج اسی چیز کی کمی ہے ، ہمارے نوجوانوں کے پاس مستقبل کا کوئی تصور نہیں ، چین ، یورپ ، روس اور امریکا کے پاس مستقبل کا ایک تصور ہے، مسلمانوں کے پاس مستقبل کا کیا تصور ہے ہمیں اپنے نوجوانوں کو مستقبل کا ایک تصور دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کیلئے کام کر سکیں، نبیۖؐ نے نظام عالم سارے جہانوں کیلئے پیش کیا ، مدینہ میں یہودی ، عیسائی ، مشرکین سب شامل تھے ، مختلف مذہب سے کئی طرح کے لوگ تھے ، خلفائے راشدین کے دور میں بھی ایسا ہی تھا ، نبؐیۖ کی بصیرت صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ساری دینا کیلئے تھی ، اسی چیز کو دوبارہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔

 وزیراعظم کے مدینہ میں تبدیلی کے سوال کے جواب میں  متحدہ عرب امارات کی فتوا کونسل کے چیئرمین عبداللہ بایا نے کہاکہ وحی کے ذریعہ لوگوں کو حقائق کا پتہ چلا ، نبیؐۖ قرآن پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے ، آپ ۖ نے لوگوں تک قرآن پاک کا پیغام پہنچایا اور انہیں قدروں سے روشناس کرایا ، انکی اپنی زندگی ،انکا اٹھنا بیٹھنا ، انکی گفتگو، ان نئی قدروں کا عملی اظہار تھا، حضرت عائشہ نے نبیؐۖ کے کردار کو قرآن کا عکس قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف دو چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جن میں لوگوں کا ایمان اور تمانیت کا تصور شامل ہے۔ نبیۖ ؐنے لوگوں کے رویہ اور پیشہ تبدیل نہیں کئے ، اگر کوئی تاجر تھا تو نبیۖ بھی تاجر تھے، اگر کوئی کسان تھا تو وہ بھی کسان تھے ، انہوں نے لوگوں کی سوچ تبدیل کی ، انہوں نے مختلف قبائل کے لوگوں کو اکٹھا کرکے بھائی چارہ قائم کیا ، مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا یہی بھائی چارہ اس معاشرے ک بنیاد تھا اوراسی وجہ سے وہاں پرامن تبدیلی آئی ، ان کی زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ خود علم کا خزانہ تھے اوردرس گاہ کی طرح عمل بانٹ رکھے تھے، اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غیر حاضر ہوتا تو وحاضرلوگوں سے کہتے کہ انہیں بتائیں کے حضورۖ نے آج کیا پڑھایا،  یہ تعلیم پھیلانے کا مسلسل عمل تھا ، یہ روزانہ عمل بانٹنے کا سلسلہ تھا ، وہ اس مسلسل عمل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کر رہے تھے۔

 انہوں نے کہاکہ حضورۖ ؐنے لوگوں کی زندگیوں کو پر سکون بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے بھائی چارے کے ذریعے لوگوں کی طرز عمل کو انتہائی پر خلوص بنانا چاہ رہے تھے ، انہوں نے کہاکہ ان کے طرز عمل کے پس منظر میں مخلص تحریک کار میسر تھے ، اس سب کی وجہ سے مدینہ کے ماحول میں یہ تبدلی آئی ۔ انہوں نے کہا کہ ایمان مدینہ کے معاشرے کی بنیاد اہم ستون تھا ، لوگوں کیلئے معاشرے کے اہداف بہت واضح تھے ، یہ وہ کوششیں تھیں جن کے نتیجہ میں لوگ متحدہ ہو رہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ اچھائیاں اور خصوصیات کیسے واپس لائیں ، اور ایک بات جس کو ذہن نشین رکھنا بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ کیاچیزیں ہیں ان کو مکمل طور پر محفوظ کیاگیا ہے اور چیزوں تک رسائی بہت واضح ہے ۔ ان کو واپس لانے کا ایک راستہ حکمرانوں اور دانشوروں کے درمیان تعلق قائم کرنا ہے جو یہ امور سرانجام دینے میں مدد کریں۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اخلاق کا پیغام ہے ، حضورۖ نے لوگوں کے پیشے تبدیل کرنے کی بجائے ان کے کردار تبدیل کئے ، جس کا اظہار ان کے پیشوں کے ذریعہ ہوا اس لیے ہمارا اخلاقی پیغام ہے  حضور ۖؐ لوگوں میں یہی تبدیلی لیکرآئے، انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایک اور بنیاد ی اصول فرمابرداری کا تھا۔  لوگ حضورۖ ؐکے احکامات پر عمل کرتے تھے ، ایسے بھی واقعات سامنے آئے کہ لوگ رویتی طور پر شراب نوشی کر  رہے تھے کہ کوئی آ کرانہیں یہ بتاتا تھا کہ شراب نہ پینے کا حکم آگیا ہے تو وہ اسی لمحہ شراب کا برتن توڑ دیتے تھے ۔ تو اس لیے فرمابرداری کا اصول انتہائی اہم ہے کے معاشرے کو قوانین پر عمل کرنا ہوتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو نبیۖ کی اطاعت کرو تو اللہ تعالی بھی تم سے محبت کرے گا۔ یہ اللہ اور رسولۖ سے محبت کے وہ راز ہیں جن کا اظہار آپۖ کی ہدایات کی فرمابرداری  اوران کے ساتھ جڑے رہنے سے ہوتا ہے ۔

سورس:وی این ایس، اسلام آباد