نچھلے طبقے کے لئے 47 ارب روپے کے ساٹھ لاکھ تعلیمی وظائف کا اعلان جلد کروں گا ؛وزیراعظم عمران خان  

17

اسلام آباد، 23 جنوری   (اے پی پی ): وزیر اعظم عمران خان  نے کہا ہے کہ  باہر کی چیزوں پر انحصار کم کرنا ہوگا، 20 لاکھ لوگوں کے ٹیکس سے 22 کروڑ کے خرچے نہیں اٹھائے جا سکتے، پاکستان ایک خواب کا نام ہے، فلاحی اور اسلامی ریاست کا خواب ہے ،تنخواہ دار طبقے پر مہنگائی کا برا اثر ہے لیکن نجی شعبہ میں نمایاں بہتری آئی ہے، صورتحال سے پوری طرح باخبر ہوں، مہنگائی نے مالدار ترین ممالک کو بھی  متاثر کیا ہے ، قانون کی بالادستی کے لئے معاشرے کا کردار فیصلہ کن ہے، مجرموں کو ہیرو سمجھنا درست نہیں،  میڈیا متوازن رپورٹنگ کرے، مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں ہے ،  نچھلے طبقے کے لئے 47 ارب روپے کے ساٹھ لاکھ تعلیمی وظائف کا اعلان جلد کروں گا۔

 اتوار کو ”آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ” میں براہ راست عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ ان کی کوشش تھی کہ ہر ماہ، دو ماہ بعد اسی طرح فون پر عوام سے بات کروں اور آپ کے سوالوں کا جواب دوں، میں پارلیمنٹ میں سوالوں کا جواب دینا چاہتا تھا لیکن وہاں این آر او مانگنے والے شور مچا دیتے ہیں، وہاں بات نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان ایک عظیم خواب کا نام ہے، یہ ہمارے نظریاتی لیڈر علامہ اقبال کا خواب تھا کہ ایسی ریاست بنے کہ ساری دنیا کے مسلمان اسے دیکھ کر سمجھیں گے اسلامی فلاحی ریاست کیسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے حال ہی میں ایک آرٹیکل لکھا تو اس پر کہا گیا کہ یہ دین کے پیچھے چھپ رہا ہے، مجھے اﷲ نے سب کچھ دیا تھا، مجھے سیاست میں آنے کی ضرورت نہیں تھی، مجھے سیاست میں آنے سے پہلے ہر کوئی جانتا تھا لیکن دیگر سیاستدانوں کو سیاست میں آنے سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، میرے سیاست میں آنے کا مقصد یہی تھا جو 25 سال پہلے اپنے منشور میں دیا جو مقصد قرارداد مقاصد میں لکھا تھا کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانی ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ ملک کو ایشیائی ٹائیگر بنائوں گا۔

 وزیراعظم نے کہاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو علم تھاکہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن پھر بھی انہوں نے قائداعظم کا ساتھ دیا جس وجہ سے یہ ملک بنا تھا، جب تک ہم اس کے مقصد پر نہیں چلیں گے، کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ مہنگائی کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور موبائل کا زمانہ ہے، میں صبح ایک گھنٹے میں تمام انفارمیشن حاصل کر لیتا ہوں، مہنگائی مجھے کئی بار راتوں کو جگاتی ہے، تاہم بڑا افسوس ہوتا ہے کہ جہاں اس مقصد میں اچھے صحافی اور لوگوں کو ملک کی صورتحال سے آگاہ کرنے والے بھی ہیں، وہاں بہت سے صحافی عوام میں مایوسی پھیلاتے ہیں، مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے، جب ہمیں اقتدار ملا تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 ارب ڈالر تھا، اس لئے روپے پر سارا دبائو تھا، ہمارے پاس ڈالر نہیں تھے کہ مارکیٹ میں پھینک کر روپے کی قیمت کنٹرول کرتے، مہنگائی کی ایک وجہ روپے کی قدر میں کمی تھی، اس کی دوسری وجہ کورونا کی وجہ سے رسد میں قلت سے یہ لہر آئی، اس سے اکیلا پاکستان متاثر نہیں ہے، برطانیہ کی پاکستان کے مقابلے میں سالانہ آمدن 50 فیصد زیادہ ہے، وہاں مہنگائی 30 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، کووڈ کے دوران ہم نے عوام کی فلاح کیلئے 8 ارب ڈالر لگائے جبکہ امریکہ نے 6 ہزار ارب ڈالر خرچ کئے، اس کے باوجود ڈبلیو ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مہنگائی 40 سال، جاپان 20 سال، فرانس 13 سال، جرمنی 30 سال اور یورپ میں 30 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، کینیڈا جیسے خوشحال ملک جہاں ہمارے لوگ کروڑوں روپے خرچ کر کے شہریت لیتے ہیں، وہاں  40 فیصد لوگوں کے پاس خوراک کے پیسے نہ ہونے کی فکر لاحق ہے، ہم اپنے ملک کے خوردنی تیل کی ضرورت پوری کرنے کیلئے 75 فیصد باہر سے منگواتے ہیں، پام آئل کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا، کھاد کی پیداوار گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے، یہ خوف دنیا میں پایا جاتا ہے کہ اس سے خوراک کا بحران پیدا ہوتا۔

 وزیراعظم نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا میڈیا اعتدال اور توازن رکھے اور عوام کو اصل صورتحال بتائے۔ انہوں  نے کہاکہ کورونا جیسا بحران 100 سال میں بھی نہیں آیا، اس سے ساری دنیا میں غربت بڑھی، امریکہ میں کھانے کی اشیاء حاصل کرنے والوں کی لائنیں لگی ہیں۔ انہوں  نے کہاکہ پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگائی کا اثر تنخواہ دار طبقہ پر ہے، ہم نے تنخواہ دار طبقے کو محصولات بڑھنے پر ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہے، اس کیلئے صبر کرنا ہوگا، پاکستان کی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے، مزدوروں، کسانوں کے حالات بہتر ہوئے ہیں، کاشتکاروں کی آمدن میں 73 فیصد اضافہ ہوا، چار بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، پاکستان میں اب ہنرمند لیبر نہیں مل رہی، ان کی تنخواہیں 60 فیصد بڑھی ہیں، ٹیکس محصولات میں اضافہ پر احساس راشن میں اضافہ کریں گے، کارپوریٹ سیکٹر میں 980 ارب روپے کا ریکارڈ منافع ہوا، انہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنے مزدور طبقہ کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔

 صحت کارڈ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ صحت کارڈ پاکستان میں صحت کے شعبہ میں انقلاب برپا کرے گا، یہ ایک پورا نظام ہے، اس سے دیہی علاقوں میں ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بنے گا، نجی شعبہ کو ہسپتالوں کے قیام کیلئے کم قیمت پر سرکاری اراضی کی فراہمی کی ہدایت کی ہے، اس کا اقتدار میں آنے سے پہلے سوچا تھا کہ اﷲ نے موقع دیا تو غریب کو علاج کی مفت سہولت فراہم کریں گے، صحت کارڈ کے ذریعے کسی بھی ہسپتال میں 10 لاکھ روپے تک علاج کی سہولت میسر ہے، پنجاب نے اس پر 400 ارب روپے لگائے ہیں، ماضی میں  کسی نے اس جانب نہیں سوچا کیونکہ یہاں وہ لوگ حکمران تھے جو اپنے ٹیسٹ کرانے لندن چلے جاتے تھے۔

وزیراعظم نے کہاکہ جب ان کی حکومت آئی تو ملک کو چار بحرانوں کا سامنا تھا، بیرونی قرضوں کی واپسی کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا، مالی خسارہ ریکارڈ سطح پر تھا، سرکلر ڈیٹ 480 ارب روپے سے تجاوز کر چکا تھا جبکہ پاکستان سے ڈالر افغانستان سمگل ہونے کی وجہ سے روپے پر دبائو تھا، ان چار بحرانوں کے باوجود شروع کا وقت ملک کو مستحکم کرنے کا تھا اور ہم اس میں کامیاب رہے، پھر کورونا کی شکل میں دنیا کی سب سے بڑی وباء آگئی، اس سے نکلنے کیلئے حکومتی ٹیم، این سی او سی، فوج، محکمہ صحت اور وزارتوں نے ملکر اقدامات اٹھائے، پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو دنیا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل کیا گیا ہے، حکومت جس طرح کورونا بحران سے نکلی، اسی طرح مہنگائی سے بھی نکلے گی۔

 وزیراعظم نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تیزی سے پھیلتی کورونا کی پانچویں لہر میں احتیاط کریں، ماسک ضرور پہنیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے اپنے کاروبار بند نہیں کرنے، اپوزیشن نے کورونا کے شروع کے تین ماہ میں اسمبلی فلور پر ہماری پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم ہماری نیت کی وجہ سے دنیا میں ہماری مثال دی جا رہی ہے، اب برطانیہ جہاں تیزی سے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے وزیراعظم نے بھی اعلان کیا ہے کہ مکمل لاک ڈائون نہیں لگایا جائے گا، دنیا میں کورونا سے امیر ترین لوگوں کو فائدہ ہوا اور ان کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا جبکہ ساری دنیا میں نچلا طبقہ متاثرہوا۔ انہوں نے کہاکہ عوام احتیاط کریں تاکہ ہسپتالوں پر بوجھ  نہ پڑے، ہم پانچویں لہر سے بھی نکل جائیں گے۔

 صدارتی نظام کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں نے اپنے ابتدائی دنوں میں قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ آپ کو بڑا شور ملے گا کہ ملک تباہ ہوگیا، جمہوریت کو خطرہ ہوگیا ہے، مجھے نااہل کہا جائے گا لیکن ہم نے بڑے ڈاکوئوں سے کوئی مفاہمت اور سمجھوتہ نہیں کرنا، میں سیاست میں آیا ہی ان کے خلاف ہوں، میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہیں سب کچھ ملا، مجھے ایسے گھٹیا لوگوں کی گالیاں سننے کی کیا ضرورت تھی لیکن میں اسے جہاد سمجھتا ہوں، مجھے پتہ تھا کہ انہوں نے این آر او کیلئے بلیک میل کرنا ہے، ان کے لئے گئے قرضوں کی قسطوں میں جمع کئے گئے ٹیکس کا آدھا پیسہ چلا جاتا ہے، انہوں نے دس سال میں بے دردی سے یہ پیسہ بہایا، ان کا نیب اپنا تھا اور انہیں این آر او مل گیا تھا، ان کی کوشش تھی کہ مشرف کی طرح مجھے بھی اتنا بلیک میل کریں گے تو میں انہیں این آر او دیکر کہوں گا کہ یہ قوم کا لوٹا پیسہ رکھ لیں لیکن میں ان سے مفاہمت اور سمجھوتے کو سب سے بڑی غداری سمجھتا ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی 5.37 فیصد پر ہے، کورونا کے باوجود یہ اضافہ ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ غربت میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے کہاکہ ملک میں پہلی بار بینک گھروں کیلئے کم آمدن طبقہ کو قرض دے رہے ہیں، ہم نے اس کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کیں، اس وقت 290 ارب روپے کے قرض کیلئے درخواستیں بینکوں کو موصول ہوئیں جن میں سے 123 ارب روپے کی درخواستیں منظور ہو چکی ہیں، 40 ارب روپے دیئے جا چکے ہیں، سرکاری شعبہ میں 45 ہزار گھر بن رہے ہیں جبکہ نجی شعبے کے 324 منصوبوں میں 30 لاکھ گھر بن رہے ہیں، اس سے تعمیرات کے شعبہ میں بڑھوتری نمایاں ہے۔

 وزیراعظم نے کہاکہ چاول، گندم، مکئی اور گنے کی ریکارڈ پیداوار سے دیہی علاقے کے ہر کاشتکار کو ایک لاکھ 65 ہزار روپے کی اضافی آمدن ہوئی، لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 10 فیصد اضافہ ہوا، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، ٹیکس محصولات 6 ہزار ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے اور قوم سے کئے گئے وعدے کے مطابق اسے 8 ہزار ارب روپے تک لے جائیں گے۔

 وزیراعظم نے کہاکہ آئی ٹی کا شعبہ پاکستان کا مستقبل ہے، پہلی بار اس کی برآمدات میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان کی برآمدات ریکارڈ 31 ارب ڈالر سے بڑھ گئی ہیں تاہم یہ بھی ابھی بہت کم ہے، اس میں اضافہ کیلئے کوشاں ہیں، ترسیلات زر 30 ارب ڈالر سے بڑھ گئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ پراپیگنڈا اور جعلی خبریں پھیلا کر ملک میں تباہی کی باتیں کرنے والے مافیاز ہیں، ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ ان کی بیرون ملک جائیدادوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، مایوسی پھیلانے کے باوجود ورلڈ بین کے مطابق پاکستان کی شرح نمو 5.37 ہے۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم پر عمل پیرا ہوں، مسلمان دنیا کی عظیم قوم اور دنیا کے امام اسی قانون پر چل کر بنے، مدینہ کی ریاست میں پہلے قانون کی حکمرانی آئی، پھر خوشحالی آئی، ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی خرابی یہی ہے یہاں طاقتور کیلئے ایک اور غریب کیلئے دوسرا قانون ہے، قانون کی بالادستی ختم ہو چکی ہے، اس وقت جیلوں میں کوئی طاقتور ڈاکو نہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ معاشرہ بدی کو شکست دیتا ہے، بدعنوان لوگوں کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے، انہوں نے پہلے اپنے بچے باہر بھگا دیئے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تین بار کے وزیراعظم کے بیٹے باہر بھاگے ہوں، میرے اوپر اپوزیشن نے الزام لگایا تو میں نے آٹھ ماہ میں ایک ایک چیز کا جواب دیا لیکن انہیں معاشرے میں ایسے پروٹوکول دیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ بڑے ڈیموکریٹ ہیں، مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اپوزیشن لیڈر سے نہیں ملتا، میں اس کو اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ قوم کا مجرم سمجھتا ہوں، یہ ایوان میں کھڑے ہو کر ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے تقریریں کرتا ہے جو تقریر کم اور نوکری کی درخواست زیادہ ہوتی ہے، اس نے 8 ارب روپے کے گھپلوں کا نیب کو جواب دینا ہے، عدلیہ سے کہتا ہوں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پران کے کیس کی سماعت کرے، یہ اپنے چپڑاسیوں کے نام پر کروڑوں روپے اکائونٹ میں بھجوانے کا جواب نہیں دے سکا۔

 انہوں نے کہاکہ جب اخلاقیات ختم ہوں تو معاشرہ تباہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ قوم کو قانون کی حکمرانی سے ہی خوشحال معاشرہ مل سکتا ہے جو بھی معاشرہ رحمت العالمین ۖ کے راستے پر چلا وہاں برکت آئی، یہاں نامور صحافی سزا یافتہ نوازشریف کو تقریر کا موقع دینے کی بات کرتے ہیں، ملک میں جیلوں میں قید چھوٹے سزا یافتہ لوگوں کا کیا قصور ہے، انہیں بھی باہر نکال دینا چاہئے۔

وزیراعظم نے کہاکہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کو تیار ہیں، کسی سے میرا نظریہ نہیں ملتا تو کوئی بات نہیں لیکن مجرموں کو این آر او دوں یا مفاہمت کروں تو اس ملک اور معاشرے سے غداری کروں گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد، نیب آزاد ہے، ہم وائٹ کالر کرائم کی مہارت کیلئے کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ نیب کو مطلوب لوگ بڑے بڑے وکیل کر لیتے ہیں جو تاریخوں پر تاریخیں لیتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں سرکاری وکیل اتنے ماہر نہیں ہوتے۔

وزیراعظم نے کہاکہ ماضی میں ججز کو یہ لوگ پیسے کھلاتے تھے، اسی لئے جسٹس کھوسہ نے انہیں سسلین مافیا قرار دیا تھا۔ وزیراعظم نے کہاکہ وہ احتساب کو جہاد سمجھتے ہیں، ہم سب نے ان کے خلاف ملکر لڑنا ہے، 74 سال سے ملک میں نافذکریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لیکر آرہے ہیں۔ انہوں   نے کہاکہ اس ملک میں سیاست دان ہی نہیں بلکہ مافیاز بیٹھے ہیں جو ملکر ذخیرہ اندوزی کر کے قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، ان پر بنائی گئی ریگولیٹری اتھارٹیاں ان کو اس وجہ سے کنٹرول نہیں کر پا رہیں کہ یہ مافیا عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیتا ہے، اس وقت 800 حکم امتناعی ہیں، اڑھائی سو ارب روپے یہاں پھنسے ہیں، ایف بی آر کے اڑھائی ہزار ارب روپے کے کیسز عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔

 وزیراعظم نے کہا کہ ہم عدالتوں سے ان کے جلد فیصلے کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمزور کی چوری سے نہیں بلکہ ملک طاقتور کی چوری سے تباہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قوم کو چند ماہ میں کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کی خوشخبری دیں گے۔

 وزیراعظم نے ڈنمارک میں پی آئی اے کے حوالہ سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اس کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی تارکین وطن سٹیزن پورٹل پر اپنے مسائل کے حوالہ سے مجھ سے بات کریں۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ناکامی کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ دوسرے مرحلے میں وہ تمام امور اپنے ہاتھ میں رکھیں گے، اگر کوئی پارٹی رہنما اپنے کسی رشتہ دار کو ڈسٹرکٹ یا تحصیل ناظم کا امیدوار بنانا چاہتا ہے تو اپنی سربراہی میں قائم کمیٹی کے پلیٹ فارم سے اس کی اہلیت دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک برقرار ہے تاہم ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا ہی امیدوار کھڑا ہوگیا۔

 درآمد شدہ موبائلز پر زائد ٹیکسوں کا حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم اپنے ملک میں چیزیں بنانے کیلئے کوشاں ہیں، میں خود باہر کے کپڑے نہیں پہنتا، ماضی میں ملک کو امپورٹ کرنے پر لگایا گیا، باہر سے موبائل کمپنیاں یہاں آکر سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہی ہیں، ہم نے ضمنی مالیاتی بجٹ میں معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے کی کوشش کی، اس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا، 22 کروڑ کے ملک میں اگر 22 لاکھ لوگ ٹیکس دیں گے تو وہ باقیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے، پاکستان میں لوگ دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں، جب ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو ملک ٹھیک کرنے کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا، ہم ایف بی آر میں آٹومیشن پر کام کر رہے ہیں، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لا رہے ہیں، ایف بی آر میں بیٹھے لوگ اپنے مفادات کیلئے ایسا نہیں ہونے دیتے تھے۔

 وزیراعظم نے کہا کہ بڑے گھروں اور گاڑیوں والوں کی تفصیل لے رہے ہیں، انہیں ایک بار موقع دیں گے، وہ ساری سہولتیں لے رہے ہیں اور ٹیکس نہیں دے رہے کیونکہ ماضی میں ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، ہر شہری کو ٹیکس دینا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم کو ماضی میں اتنی ترجیح نہیں دی گئی، تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ہم 60 لاکھ مستحق نوجوانوں کو میرٹ پر سکالر شپس دینے جا رہے ہیں، اس پر 47 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں، ہم نے ملک میں تین مختلف نصاب ختم کر کے پہلی بار مشاورت کے ساتھ پانچویں تک یکساں نصاب لایا ہے، اس سے عام آدمی کو اوپر آنے کا موقع ملے گا، اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور ان کی تربیت کیلئے آٹھویں سے دسویں جماعت تک نبیۖ ﷺ کی سیرت پڑھائیں گے تاکہ وہ ان کی زندگی سے سیکھیں، دنیا میں ان سے بڑا کوئی انسان نہیں آیا۔

لانگ مارچ کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اپوزیشن نے تین سال میں کونسا کام نہیں کیا، بے روزگار سیاستدان حکومت گرانے کی بات کرتا ہے، اس ملک میں عوام کو ذوالفقار علی بھٹو نے نکالا تھا اور پھر اﷲ کے کرم سے عوام میرے ساتھ نکلی، 11 جماعتوں کا گلدستہ مینار پاکستان نہیں بھر سکا جبکہ میں نے چار بار یہ جلسہ گاہ بھری، عوام مہنگائی سے بھلے تنگ ہوں لیکن وہ ان کیلئے نہیں نکلے گی، قوم ان کی چوری بچانے نہیں نکلے گی، تحریک انصاف نہ صرف موجودہ حکومتی مدت پوری کرے گی بلکہ آئندہ پانچ سال بھی حکومت کرے گی، اب تو ہم مشکل وقت سے نکلے ہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ اپوزیشن یاد رکھے میں حکومت سے باہر نکل گیا تو ان کیلئے زیادہ خطرناک ہوں گا، میں سڑکوں پر نکل آیا تو ان کیلئے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی، لوگ ان کو پہچان چکے ہیں، لوگوں کے اندر ان کی حکومتوں کا 30 سال کا لاوا اگر پھٹ گیا تو یہ باقی بھی لندن بھاگیں گے، ایک پہلے سے بھاگا ہوا ہے، وہ واپس آنے کی بات کر رہا ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ واپس آئے، وہ قوم کے پیسے لوٹ کر بھاگا ہے، وہ واپس نہیں آئے گا، اگر واپس آنے اور ڈیل کا شوشہ نہیں چھوڑتے تو انہیں پتہ ہے کہ ان کی جماعت ٹوٹ جائے گی، تین بار وزیراعظم رہنے والا حساب دینے کی بجائے کہتا ہے کہ میرے بیٹوں سے پوچھیں جو کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں، میں ان کے پاکستان آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔

سورس:وی این ایس، اسلام آباد