اسلام آباد،24فروری (اے پی پی):مسلم انسٹیٹیوٹ اور آذربائیجان سفارت خانہ کے زیر اہتمام “نسل کشی اور قتلِ عام: انسانیت کے خلاف جرم” کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد ہوا۔ سیمینار کا انعقاد خوجالی نسل کشی کی 30 ویں برسی کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ مقررین میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام ، دیوان آف جوناگڑھ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب خان، ترکی کے سفیر مصطفی یردکل ، آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف، وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شاہ شامل تھے۔
مقررین نے کہا کہ آذربائیجان اور آرمینا کے درمیا ن نوگورنو کاراباخ کا تنازعہ بیسویں صدی کا ایک خونی تنازعہ تھا ۔ 1948 سے 1953 تک آرمینا کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ آذربائیجانی لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے زبردستی بیدخل کیا گیا۔ اسی طرح 1988 میں اڑھائی لاکھ آذربائیجانی لوگوں کو ملک بدر کیا گیا۔ خوجالی نسل کشی بیسویں صدی کا ایک اندوہناک واقعہ ہے جو کہ آرمینیا کی جابرانہ اور مجرمانہ پالیسی کا نتیجہ تھا۔ یہ نسل کشی انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ فروری 1992 میں آرمینیا کی فوجوں نے نوگورنو کاراباخ میں آذری آبادکاری کے علاقہ کا محاصرہ کیا اور تین روز تک آذربائیجانی مسلمانوں کی نسل کشی کی۔ اس دوران 106 خواتین اور 83 بچوں سمیت 613 بے گناہ آذربائیجانیوں کا قتل عام ہوا۔ چار سو چھہتر افراد مستقل طور پر معذور ہو گئے۔ مجموعی طور پر 1275 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ ہونے والے طبی معائنے کے مطابق قتل عام کا نشانہ بننے والے متعدد افراد جن میں خواتین، بچے اور بوڑھے شامل ہیں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ آرمینیا کے قبضے اور نسل کشی کے باوجود آذربائیجان کے عوام پرعزم رہے اور 2020 آرمینیا کے جارحیت کے نتیجے میں دوبارہ جنگ شروع ہوئی اور چالیس روزہ تناعہ کے بعد آرمینیا کو اپنی شکست قبول کرنا پڑی۔
مقررین نے کہا کہ شہداء کو یاد رکھنے سے قوموں میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ظالم کے بیانیے کو چیلنج کرنے کی بھی ضرورت ہے وگرنہ کشمیر، میانمار، اور دیگر خطوں میں ہونے والے مظالم کو روکنا ممکن نہیں۔ اسی طرح بھارتی گجرات اور حالیہ کرناٹکا میں ہونے والی نسل کشی کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
مقررین نے مزید کہا کہ پاکستان اور آذربائیجان دو برادرانہ اسلامی ممالک ہیں جو کہ جذبہ اسلامی کے تحت ایک دوسرے سے گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں- دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات قائم ہیں- پاکستان نے ہمیشہ آذری بھائیوں کے اصولی مؤقف کی بغیر کسی مفاد کے غیر مشروط حمایت کی ہےاسی لئے نگورنو کاراباخ پر آرمینیا کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کے باعث ہونے والی جنگ میں پاکستان نے آذربائیجان کی بھر پور اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے اور آج تک آرمینا کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا یہ مؤقف دراصل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی فکر کے عین مطابق ہے- ہمیں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کر کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عسکری، تعلیمی، تجارت سمیت دیگر شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔