پچیس  ارکان کے ڈی سیٹ ہونے سے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی پنجاب میں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز ہی رہیں گے؛ مریم اورنگزیب

4

اسلام آباد،20مئی  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے سے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی پنجاب میں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، وزیراعلیٰ حمزہ شہباز ہی ہیں، عمران صاحب کے لئے آج خوشی منانے کا نہیں ماتم کرنے کا دن ہے، عمران صاحب کو ماتم کرنا چاہئے کیونکہ ان کی جماعت کے 25 ارکان انہیں چھوڑ کر چلے گئے، عمران صاحب کی آٹا چینی ، گھی، دوائی چوری، مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہی کے خلاف ان کے ارکان انہیں چھوڑ کر چلے گئے، یہ عمران صاحب کے لئے 25  طمانچے ہیں، 25  ارکان کے ڈی سیٹ ہونے سے عمران صاحب سیاست سے ڈی سیٹ ہوگئے ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف کیس کا فیصلہ ایک مہینے میں دیا، 8 سال سے زیرالتوا فارن فنڈنگ کیس کی طوالت دیکھتے ہوئے ایک دن میں فیصلہ کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چار سال اقتدار پر مسلط ٹولے نے عوام کو لوٹا، ملکی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجائی، اقتدار پر مسلط رہ کر سیاسی مخالفین اور میڈیا کی آواز بند کی اور اپنی نالائقی سے چوری کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب کے 25 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلہ کا  پنجاب حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

 انہوں نے کہا کہ عمران خان نے چار سال تک عوام سے صرف جھوٹ بولا اور ان 25 اراکین نے عمران خان کی پالیسیوں سے انحراف کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل عمران خان الیکشن کمیشن کے خلاف تھے، آج اس فیصلے کے بعد وہ الیکشن کمیشن کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین شکنی کے خلاف جب رات کو عدالتیں کھلیں تو عمران خان اور پی ٹی آئی نے ججز اور عدالتوں کو دھمکیاں دیں، ان کی فیملیز کو بدنام کرنے کی کوشش کی، اپنی جماعت کے ٹویٹر ہینڈلرز کے ذریعے انہوں نے جج صاحبان کے خلاف منظم مہم چلائی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس شخص کی ذہنی کیفیت عوام بخوبی جانتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتے ہیں، چاہے وہ اقتدار عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہی دے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حکم پر صدر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، گورنر نے آئین شکنی کی، اس آئین شکنی کے خلاف منحرف اراکین نے آواز بلند کی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 25 منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی پنجاب میں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، وزیراعلیٰ حمزہ شہباز ہی ہیں۔ آج کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کی پنجاب اسمبلی میں تعداد 177 ہے اور پی ٹی آئی کی 172 ہے، ڈی سیٹ ہونے والے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان نے عوام کو لوٹنے، بجلی، گیس اور دوائی چوری کی وجہ سے اپنی پارٹی سے انحراف کیا، عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئینی طریقہ ہے، منحرف ارکان ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں، ڈی سیٹ ہونے والے ارکان نتائج سے آگاہ تھے، اس کے باوجود انہوں نے اس سیاست سے انحراف کیا جو عوام سے آٹا چھین لے، عوام کو غربت کا شکار کرے، ملک میں افراتفری پھیلائے اور معیشت تباہ کرے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج عمران خان 25 ارکان سے محروم ہوئے ہیں، ان اراکین نے پاکستان کی عوام کی خاطر ووٹ دیا، انہوں نے اس فاشسٹ، غنڈہ گردی اور عوام کو لوٹنے والی حکومت کے خلاف ووٹ دیا، یہ اراکین اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ دینے کے حوالے سے پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی ہدایت جاری نہیں ہوئی تھی۔

 وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے عوام کو لوٹا، ریلیف دینے کی بجائے عوام کو بے روزگار کیا، بیرون ملک سازش کا ڈھونگ رچایا، چار سال اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر کارٹلز اور مافیا کو فائدہ پہنچایا، چار سال اس ٹولے نے پنجاب کو بدترین نقصان پہنچایا، مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف نے پنجاب کو جو جو ریلیف دیا تھا، اس ٹولے نے عوام کو اس سے محروم کیا اور عوام کا معاشی قتل کیا۔ عثمان بزدار کی صورت میں ایک گونگا اور بہرہ وزیراعلیٰ پنجاب پر مسلط تھا جس کے اوپر فرح گوگی عمران خان کی بے نامی مسلط تھیں جس نے پنجاب میں لوٹ مار کی، یہ تمام حقائق پاکستان کے عوام جانتے ہیں۔

 مریم اورنگزیب نے کہا کہ ڈی سیٹ ہونے والے اراکین نے عمران خان کی سیاست کو ڈی سیٹ کیا ہے، آج جو الیکشن کمیشن کے باہر شادیانے بجا رہے ہیں یہ ان کے لئے ماتم کا وقت ہے کیونکہ تحریک انصاف پنجاب میں پچیس لوگوں سے محروم ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، مسلم لیگ (ن) عمران خان کے بدترین اور بدبودار احتساب اور میڈیا ٹرائلز کے باوجود آج سرخرو ہے۔ ان کا لگایا ہوا کرپشن کا ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوا۔ اس بدترین احتساب کے باوجود کسی ایسے شخص کا نام لیں جو نواز شریف کو چھوڑ کر گیا ہو یا پارٹی سے انحراف کیا ہو؟

 وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بھی عمران خان کے خلاف ان کے اتحادیوں نے آواز بلند کی، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں پارلیمان سے اٹھا کر باہر پھینکا گیا، پنجاب اسمبلی سے بھی انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے باہر پھینکا گیا، جس اسمبلی میں بھی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے گی، انہیں اٹھا کر باہر پھینکا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئینی طریقہ کار ہے، آئین اس کی اجازت دیتا ہے، یہ تمام چیزیں ان کے خلاف آئین کی روح سے ہوئیں، ڈی سیٹ ہونے والے اراکین نے دن دیہاڑے عمران خان کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا، ان اراکین نے عمران خان کی معاشی تباہی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جس طرح الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف کیس کا فیصلہ ایک مہینے میں دیا ہے، 8 سال سے زیر التواء فارن فنڈنگ کیس کی طوالت کو دیکھتے ہوئے ایک دن میں فیصلہ کرے۔

 انہوں نے کہا کہ چار سال تک وزیراعظم کی کرسی پر مسلط شخص نے فارن فنڈنگ کے ذریعے منی لانڈرنگ کی، عمران خان نے فارن فنڈنگ ڈیکلیئر نہیں کی، فارن فنڈنگ کیس میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟، عمران خان کی اس فیصلے کو روکنے کے لئے عدالتوں میں درخواستیں گئیں، الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس کی جب بھی سماعت ہوئی تو الیکشن کمیشن کو دھمکی دی گئی۔ عمران خان سے جب فارن فنڈنگ کا سوال کریں تو کہتے ہیں دوسری پارٹیوں سے حساب مانگیں، ہم نے چالیس سال کا حساب دیا ہے، عمران خان اپنی فارن فنڈنگ اور فرح گوگی کی لوٹ مار کا حساب دیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے ملازمین کے ذاتی اکائونٹس میں پیسہ منگوایا اور ڈیکلیئر نہیں کیا، عمران خان کی منی لانڈرنگ کے بارے میں ثبوت اسٹیٹ  بینک نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے، یہ اسٹیٹ بینک کا سرکاری ریکارڈ ہے جو عمران خان کو منی لانڈرر اور فارن فنڈنگ کا مجرم قرار دے چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کا فیصلہ آئے گا تو تحریک انصاف کی پوری جماعت کالعدم ہوگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج اگر نااہلی کسی کی بنتی ہے تو وہ عمران خان کی بنتی ہے، منی لانڈرنگ، مہنگائی، عوام کو لوٹنے، کارٹلز اور مافیا کی جیبیں بھرنے پر نااہلی عمران خان کی بنتی ہے، یہ نااہلی ان 25 منحرف اراکین کی نظر میں ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب الیکشن ہوگا تو پی ٹی آئی کو ٹکٹ کے لئے بندہ نہیں ملے گا۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ آج تحریک انصاف پچیس ارکان سے محروم ہوئی ہے، ان ارکان نے عمران خان کی پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے انہیں چھوڑا ہے، یہ عمران خان کے منہ پر 25 طمانچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ان اراکین کی بات کبھی نہیں سنی، ان کا مقصد کارٹلز اور مافیاز کی جیبیں بھرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کرائے کے ترجمان ابھی سے جھوٹ بولنا شروع ہو گئے ہیں کہ حکومت ختم ہو گئی ہے، حمزہ شہباز کے پاس 177 ووٹ موجود ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے پاس ان اراکین کے جانے کے بعد اب 172 ووٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی چار سالہ کارکردگی یہ ہے کہ یہ اپنے لوگوں کو بھی ساتھ نہیں رکھ سکے، ان کی پالیسیاں عوام دشمن تھیں، انہوں نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا اور ساٹھ لاکھ لوگوں کو بے روزگار کیا، جھوٹ بولنے اور خط لہرانے سے ان کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مریم نواز کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں، مریم نواز کسی سے نہیں ڈرتیں، مریم نواز کو کمزور نہ سمجھیں، وہ انہیں جواب دینا جانتی ہیں اور سرگودھا میں انہیں جواب مل بھی گیا ہوگا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج وہ شخص منہ کھول رہا ہے جو فرح گوگی کے علاوہ بی آر ٹی پشاور، مالم جبہ، ہیلی کاپٹر کیس، آٹا چینی کرپشن پر جواب نہیں دے سکا، فرح گوگی پر اس لئے جواب دے رہا ہے کہ وہ اس کی بے نامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹا، چینی، بجلی، گیس اور دوائی چوری، ملک کو تباہ کرنے، آئین شکنی اور میڈیا کی آواز دبانے پر ان کے ارکان ان سے منحرف ہوئے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ریاست کے تین ستون ہیں، ان کی اپنی اپنی آئینی حدود متعین ہیں، ایگزیکٹو کا ایڈمنسٹریٹر استحقاق موجود ہے، قابل افسران کی تعیناتی وفاقی حکومت کا اختیار اور استحقاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سالوں میں اداروں کو سیاسی مخالفین اور میڈیا کے خلاف استعمال کیا گیا۔ رانا ثناء اللہ کے کیس کی سماعت کے دوران جج کو اس وجہ سے بدل دیا کہ شاید وہ رانا ثناء اللہ کو ضمانت دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر ایسٹ ریکوری یونٹ کے ہیڈ تھے، وہ نیب کے دفتر میں بیٹھ کر گرفتاریوں کا حکم دیتے، وہ ان جیلوں کی نگرانی کرتے جہاں سیاسی مخالفین کو سزائے موت کی چکیوں میں رکھا ہوا تھا، وہ یہ دیکھتے تھے کہ شہباز شریف کو نماز کے لئے کرسی ملی ہے یا نہیں۔ بشیر میمن نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مجھے عمران خان نے اپنے دفتر میں بلا کر دبائو ڈالا کہ میں ان تمام لوگوں کے خلاف کیسز بنائوں، میں نے کہا کہ کیسز نہیں بنتے تو مجھے فارغ کر دیا گیا۔ یہ تمام چیزیں تاریخ اور ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

 ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈی سیٹ ہونے والے اراکین کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خلاف فیصلے کو چیلنج کریں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو پچیس اراکین چھوڑ کر گئے ہیں، اس پر انہیں خوشیاں نہیں ماتم کرنا چاہئے۔ الیکشن کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الیکشن کرانے اور الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ اتحادیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کریں گے۔ عمران خان الیکشن کرانے کا حق نہیں رکھتے، ان کے پاس اس وقت استحقاق تھا جب وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر مسلط تھے، اس وقت الیکشن کروا دیتے، اب اس وقت الیکشن ہوگا جب اتحادی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس کی تاریخ دے گی۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان ذہنی مریض ہیں، وہ صبح کچھ بات کرتے ہیں اور شام کو کچھ اور، پاکستان کی عوام جانتی ہے کہ کس نے انہیں لوٹا، کس نے عوام سے دوائی لوٹی، کس نے جھوٹے وعدے کئے، کس  نے خارجہ پالیسی اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ عوام ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن میں ٹکٹ کے لئے بندے ڈھونڈتی پھرے گی لیکن اسے لوگ نہیں ملیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، اسٹیٹ بینک کا ریکارڈ موجود ہے، الیکشن کمیشن یہ ریکارڈ عوام کو فراہم کر دے کہ پی ٹی آئی کے وکیل کتنی مرتبہ بیمار ہوئے، کتنی مرتبہ بیرون ملک گئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس مواد موجود نہیں، انہوں نے منی لانڈرنگ کی ہے، انہوں نے غیر ملکیوں سے پیسے لئے اور ڈیکلیئر نہیں کئے۔

 ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آج تک انہوں نے مسلم لیگ (ن)  میں اختلافات نہیں دیکھے، مسلم لیگ (ن) ایک جماعت ہے جس کے قائد محمد نواز شریف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فیصلے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو پارلیمان سے باہر نکالا، اگلے عام انتخابات  میں پاکستان کی سیاست سے ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔  انہوں نے کہا کہ عوام کو مہنگائی میں جھونکنا مسلم لیگ (ن) کے منشور کے خلاف ہے، مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کا فیصلہ ہے کہ پچھلی حکومت کی لوٹ مار اور کرپشن کا بوجھ پاکستان کے عوام پر کیوں ڈالا جائے، پاکستان کے عوام کو اس کی سزا کیوں دی جائے، یہ سزا اس شخص کو دینی چاہئے جس نے منفی سیاست کے لئے ملکی معیشت کو استعمال کیا، اپنے منصب کو استعمال کیا، پاکستان کے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسا، یہ سزا پاکستان کے عوام کو نہیں عمران خان کو ملنی چاہئے۔

 وفاقی وزیر اطلاعات نے کراچی میں فائرنگ کے واقعہ میں تین افراد کے جاں بحق ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو نظر انداز کرنے کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ تمام جماعتوں نے مل کر پارلیمان کے ذریعے نیشنل ایکشن پلان اور سیکورٹی پالیسی کی منظوری دی تھی، عمران خان نے اپنی انا اور ضد کی خاطر نیشنل ایکشن پلان کو نظر انداز کیا، وہ صوبوں سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ پانی، دہشت گردی یا معیشت جیسے مسائل پر وہ صوبوں سے بات نہیں کرتے تھے، کووڈ کے دوران جب صوبوں کے اندر میٹنگ ہوئی تو یہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ آج اس طرز عمل کے اثرات ان واقعات کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو انا، تکبر اور ضد کا کوئی مسئلہ نہیں، وہ تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور چیف سیکریٹریز سے بات کرتے ہیں، ہر روز ان کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں تاکہ ملک میں کسی جگہ مہنگائی نہ ہو، دہشت گردی نہ ہو، امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو، یہی فرق وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان میں ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے تو انہوں نے میثاق معیشت کی بات کی تھی جس پر ان پر این آر او کا الزام عائد کر دیا گیا، عمران خان آج تک این آر او کا الزام ثابت نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت، پانی یا دہشت گردی کا مسئلہ ہو، ان تمام چیزوں پر شہباز شریف کسی قسم کی انا یا ضد نہیں رکھتے، انہیں اپنی ذات سے بڑھ کر پاکستان کے عوام اور ان کی تکالیف کا احساس ہے۔ یہی فرق ایک جمہوری وزیراعظم اور فاشسٹ وزیراعظم میں ہوتا ہے۔

سورس:وی این ایس، اسلام آباد