ریونیو کی کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو میٹھے مشروبات کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرنا چاہیے ؛ طبی و معاشی ماہرین

10

اسلام آباد،09 ستمبر  (اے پی پی ): طبی و معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جہاں قرضے اور واجبات آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں وزارت خزانہ کو ریونیو کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنے انداز میں مزید حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ شوگر ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں فوری اضافے سے ریونیو میں کمی کو پورا کرنے کے لیے 60 ارب پاکستانی روپے سے زیادہ کی آمدنی ہو سکتی ہے۔

یہ بات طبی و معاشی ماہرین نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میڈیا سیشن کے دوران کہی۔ آگاہی سیشن میں ممبر صوبائی اسمبلی ملک ظہیر کھوکھر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جبکہ سیکرٹری پناہ  ثناء اللہ گھمن جنرل سیکرٹری نے میڈیا بریفنگ سیشن کی میزبانی کی۔ سیشن میں سینئر صحافیوں، رپورٹروں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، ماہرین صحت اور معاشی ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام  منور حسین نے کہا کہ میٹھے مشروبات زندگی کی ضرورت نہیں ہیں اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمت سے عام آبادی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم، ایندھن، توانائی اور زرعی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا براہ راست اثر ہر فرد پر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ ہولناک سیلاب  سے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ  زرعی اجناس اور مداخل پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی جائے تاکہ غذائی تحفظ کو درپیش سنگین خطرات پر قابو پایا جا سکے۔

 منور حسین نے حکومت زور دیا کہ وہ شکر والے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بتدریج اضافہ کرنے اور وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کی جانب سے کابینہ میں پیش کیے گئے زیر التواء ہیلتھ کنٹری بیوشن بل کی ترجیحی بنیادوں پر منظوی دے ۔ حکومتی خزانے کو اس سے 100 ارب روپے سے زائد ریوینو  حاصل ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس اضافی رقم کو  سیلاب سے متاثرہ آبادی کو ریلیف دینے کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

 پناہ  کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے شکر والے مشروبات کے نقصانات بارے پناہ کی آگاہی مہم سے شرکاء کو آگاہ کیا ۔انہوں نے  آئی ایم ایف پر زور دیا کہ وہ ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کی شرائط عائد نہ کریں کیونکہ اس سے ہر ایک کی زندگی متاثر ہوگی تاہم شکر والے مشروبات پر ٹیکس بڑھانا حکومت کے لیے جیت کی صورت حال ہے کیونکہ اس سے ناصرف اضافی آمدنی پیدا ہوگی بلکہ بیماری کے بوجھ کو بھی کم کیا جاسکے گا۔

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کےنیشنل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد   نے کہا کہ میٹھے مشروبات کی صنعت سالانہ 12 فیصد سے زیادہ ترقی کر رہی ہے جس سے صحت عامہ کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ چینی سے بنے مشروبات کی بڑھتی ہوئی کھپت نے ملک کو ذیابیطس کی ہنگامی صورت حال میں مبتلا کر دیا ہے جہاں  ہر تیسرا بالغ پاکستانی ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ 10 ملین سے زیادہ لوگ پہلے ہی ذیابیطس کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  اگر صورتحال کی جانب فوری توجہ دے کر  اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ایک اندازے کے مطابق  پاکستان میں ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد 2045 تک بڑھ کر 62 ملین ہو جائے گی۔