نئی نسل کو تمباکو نوشی سے بچانے کے لیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا؛ طبی ماہرین

3

اسلام آباد،30ستمبر(اے پی پی): تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں سے نوجوانوں کو ہلاکت خیزیوں میں  مبتلاء کر رہی ہے۔  ہر روز 1200نئے بچے تمباکو نوشی شروع کر رہے ہیں۔اگر ہم نے اسے قومی المیہ سمبھ کر جنگی بنیادوں پر اس کے خلاف کام نہ کیا تو ہماری آنے والی نسلوں کو اس کے تباہ کن نتایج بھگتنا پڑیں گے۔

یہ بات ماہرین صحت نے جمعہ کو یہاں مقامی ہوٹل میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام “تمباکو صنعت کی نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کی طرف راغب کرنے کے نئے طریقے” کے بارے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کیا۔ تقریب  میں صحت  کے ماہرین،  سول سوسائٹی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔   تقریب  کی میزبانی پناہ کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے کی۔

تقریب سے  خطاب کرتے ہوئے ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ پناہ  گزشتہ 4 دہائیوں سے لوگوں میں دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے شعور اجاگر کر رہا ہے، آگاہی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پناہ قانون اور پالیسی سازوں کے ساتھ مل کر دل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو ختم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  ورلڈ  ہیلتھ  آرگنا ئزیشن کی016 2  کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ  8  لاکھ سے زیادہ اموات  دل  اور اس سے متعلقہ امرا ض سے ہو رہی ہیں۔

ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ تمباکو نوشی دل کی بیماریوں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، پناہ نے ہر سطع پر اپنی آواز بلند کی ہے تا کہ نوجوانوں کو تمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے بچائے لیکن تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس لعنت کی طرف مائل کر رہی ہے۔پناہ نے ان وجوہات کو جاننے کے لیے ایک سروے کیا، اس سروے کے نتائج چشم کشاہ تھے، جس کے مطابق پاکستان میں ہر روز 1200نئے بچے تمباکو نوشی شروع کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمباکو انڈسٹری  کا خصوصی ہدف بچے ہیں، سکولوں کے ارد گرد بہت بڑی تعداد میں تمباکو کی مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں اور  تمباکو کی ملٹی نیشنل کمپنیاں سکولوں کے قریب اپنی مصنوعات کی فروخت پر ذیادہ توجہ دیتی ہیں۔

 ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے ملک کا مستقبل محفوظ بنانا ہے اور بچوں کو نشے کی اس لعنت سے محفوظ رکھنا ہے تو حکومت کو اس طرف توجہ کرنی پڑھے گی اور اس قانون پر سختی سے عملدرامد یقینی بنانا ہو گا جس کے مطابق سکولوں سے 50 میٹر کے فاصلے تک تمباکو نوشی کی مصنوعات پر پابندی ہے۔ دکانوں میں ان مصنوعات کی تشہیر پر  اور کھلے سیگریٹ کی فروخت پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ (FCTC)-کے آرٹیکل 5 کی شق  3کے مطابق  انڈسٹری کے لوگ قانون ساز اداروں کے لوگوں سے براہ راست نہیں مل سکتے تا کہ تمباکو کے متعلق پالیسیز کو انڈسٹری کے مفادات سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن پاکستان میں  تمباکو کمپنی کے مالکان کو پالیسی سازی کے ادارے میں نمائندگی حاصل ہے جو تمباکو نوشی سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے میں ایک رکاوٹ ہے۔

 مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان نسل کو تمباکو نوشی کی ہلاکت خیزیوں سے بچانے کے لیے حکومت کو ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں تاکہ ہم آنے والی نسل کو ایک صحت مند پاکستان دے سکیں۔