چترال؛ فارسٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں گدھے پیش کرنے کا انوکھا واقعہ، گدھوں پر غیر قانونی لکڑی اسمگلنگ کرنے کا الزام ہے

27

چترال،21 اکتوبر (اے پی پی ): چترال م فارسٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں گدھے پیش کرنے کا انوکھا واقعہ، ان گدھوں کے مالکان پر الزام ہے کہ وہ  انہیں غیر قانونی لکڑی اسمگلنگ کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔

اسسٹنٹ کمشنر دروش کی عدالت میں طلب کئے گئے گدھوں کا واقعہ یوں ہے کہ دروش گول نالے کے دھانے پر واقع گاؤں گرومیل کے کچھ لوگ اب بھی گدھے پالتے ہیں اور  جنگل سے بالن وغیرہ لانے کے لیے گدھے استعمال کرتے ہیں، چونکہ یہاں جنگل میں روڈ نہیں ہوتے اور جنگل کے نزدیکی لوگ اکثر اسی غرض سے گدھے پالتے ہیں مگر گذشتہ دنوں اس گاؤں میں پے در پے دو مختلف واقعات میں پانچ گدھے جنگل سے غیرقانونی ٹمبر لاتے ہوے پکڑے گئے، پہلے واقعے میں اسسٹنٹ کمشنر دروش کو اطلاع ملی کہ  دروش گول کے جنگل سے گرومیل گاؤں کے کچھ افراد رات کے آخری پہر گدھوں کے زریعے لکڑی لا رہے ہیں، اسسٹنٹ کمشنر نے فارسٹ سٹاف کو اطلاع دیکر مشترکہ کارروائی کی اور تین گدھے اور 5 عدد لکڑی قبضے میں لیے جبکہ ملزمان گدھوں کو اور لکڑیوں کو چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، پکڑے گئے گدھوں کو بطورِ مال مقدمہ گاؤں کے ایک شخص کی سپرداری میں دے کر مالکان/ ملزمان کے بارے میں تفتیش شروع کی گئی مگر دو دن بعد پھر مخبر کی اطلاع پر اسسثنٹ کمشنر دروش نے ہمراہ فارسٹ سٹاف کاروائی کرتے ہوے موقع پر 10 فٹ لکڑیوں کے ساتھ دو گدھے مع ایک ملزم گرفتار کیا جبکہ کارروائی سے واپسی پر پکڑے گئے، دو گدھوں کے علاوہ رات کے اندھیرے میں راستے میں باندھے ہوے ایک اور گدھے کو بھی ساتھ لے آئے جو کہ وہی گدھا تھا جس کو دو دن پہلے گرفتار کرکے سپرداری پر تیسرے شخص کو حوالہ کیا گیا تھا۔

بس اسی غلط فہمی میں اسسٹنٹ کمشنر دروش نے گدھے عدالت طلب کرکے ان کی شناخت پریڈ کروائی اور اپنی تسلی کروائی۔    تب سے معاملہ سوشل میڈیا میں طنز و مزاح کا ٹرینڈ بن گیا ہے اور لوگ اس واقعے کو مذاق کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ معاملہ اتنا گھمبیر نہیں جتنا دیکھایا جا رہا ہے۔

دروش گول جنگل دروش شہر سے 4 5 گھنٹے کی مسافت پر ہے اور دیار اور فر سپروس کا ایک گھنا جنگل ہے، جنگل میں فر سپروس کے گرے پڑے خشک درختوں کا ملبہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس جنگل میں آگ لگنے کے واقعات بھی زیادہ ہوتے ہیں جبکہ حالیہ سال بھی اسی جنگل میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس پر فارسٹ عملہ اور  مقامی لوگوں نے بڑی مشکل سے قابو پایا تھا تاہم قانونی پابندی ہونے کی وجہ سے لوگ اس دیار اور فر سپروس کے قابل استعمال لکڑیوں کو بھی اپنے استعمال میں نہیں لاسکتے نتیجتاً مضافات کے لوگ اپنی ذاتی ضرورتوں کے لیے جنگل سے رات کے اندھیرے میں لکڑی چوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

چونکہ قانون لوگوں کی سہولت کے لیے ہوتا ہے اس لیے قانون  بنانے   والوں   کو  چاہیے  کہ  یہاں  کے رہنے والے  باسیوں  کے  مفاد کو مدنظر رکھ کر  قانو ن  بنائے  جائیں ۔