ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کی جلد تشخیص سے ان کی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں؛پارلیمانی سیکرٹری تعلیم زیب جعفر

13

اسلام آباد،14اکتوبر  (اے پی پی):پارلیمانی سیکرٹری تعلیم زیب جعفر نے کہا ہے کہ ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کی جلد تشخیص سے ان کی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں، اس سلسلہ میں ضروری قانون سازی کی گئی ہے جبکہ  اس حوالہ سے اساتذہ کو خصوصی تربیت بھی  دی جائے گی۔

 جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ ڈسلیکسیا ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے بچے کو پڑھنے لکھنے، کسی لفظ اور بچے کو یاد رکھنے، الفاظ کی ادائیگی میں مستقل دشواری پیش آتی ہے، یہ بیماری دماغ اور اس کی کارکردگی سے تعلق رکھتی ہے مگر اس کا تعلق ذہانت سے نہیں ہے، یہ ایسا مسئلہ ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا اور اس کے شکار افراد بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

 پارلیمانی سیکرٹری تعلیم زیب جعفر نے کہا کہ ایسے میں والدین سیکھنے کیلئے ان پر دبائو ڈالتے ہیں اور انہیں دوسرے بچوں کی مثالیں دیتے ہیں، بچے کے سیکھنے سمجھنے میں دشواری کی کئی وجوہات میں ایک وجہ ڈسلیکسیا بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈسلیکسیا کے بارے میں ضروری قانون سازی کا مقصد یہ ہے کہ جب بچہ سکول میں داخل ہو تو اسی وقت والدین کو ایک سوالنامہ دے کر اس کے بارے میں تشخیص کی جائے، اگر یہ بچہ اس مرض کا شکار ہے تو اس پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ پڑھائی کے دوران کم سے کم مشکلات کا سامنا کرے۔

 پارلیمانی سیکرٹری تعلیم زیب جعفر نے کہا کہ اس کیلئے اساتذہ کو تربیت دی جا رہی ہے، زیادہ تر اس مرض کے شکار بچے انگریزی اور ریاضی میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں اس لئے ہم انہی دونوں مضامین کے اساتذہ کو تربیت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقوا م متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر کلاس میں 20 فیصد بچے اس مرض کا شکار ہوتے ہیں، اساتذہ ان بچوں کو عام بچوں کے ساتھ ہی پڑھائیں گے لیکن انہیں چیزیں دو مرتبہ سکھائی جائیں گی۔

 پارلیمانی سیکرٹری تعلیم زیب جعفر نے کہا کہ وہ خود بھی اس مرض کا شکار رہی ہیں لیکن بہتر ماحول، والدین اور اساتذہ کی جانب سے حوصلہ افزائی سے انہوں نے اپنے اہداف کو حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کی 5 سے 10 فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے ہر روز ان کی زندگی مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ والدین اور اساتذہ کا دبائو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شعوری طور پر اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی زندگی اور ان کو درپیش صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔