اسلام آباد،13جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ملک کے کسی حصے میں گندم کی قلت نہیں ہے، پاکستان سالانہ 2 ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کر رہا ہے، ماضی میں پاکستان گندم برآمد کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔
جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان روس سے 2.6 ملین ٹن گندم درآمد کر رہا ہے، اب تک روس سے 1.3 ملین ٹن گندم درآمد کی جا چکی ہے، رواں سال جائزہ کمیٹی کے فیصلہ کے بعد حکومت نے 2.6 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، گذشتہ سال حکومت نے 1.8 ملین ٹن گندم سٹرٹیجک ذخائر میں رکھی تھی جبکہ رواں سال 1.5 ملین ٹن گندم سٹرٹیجک ذخائر میں رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے کسی حصے میں گندم یا آٹے کی قلت نہیں ہے، ہمارے پاس وافر مقدار میں گندم موجود ہے اور ہم نے صوبوں سے بھی کہا ہے کہ انہیں جتنی بھی گندم درکار ہو گی وہ فراہم کی جائے گی۔
وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ پنجاب سمیت صوبے گندم ریلیز نہیں کر رہے جبکہ صوبوں کو ضرورت کے مطابق گندم دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گندم کی قلت اور قیمتوں پر واویلا غیر ضروری ہے، حکومت ہر قسم کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تیار ہے، 18ویں ترمیم کے بعد گندم سمیت اشیاء ضروریہ صوبائی امور ہے، خیبرپختونخوا سمیت تمام صوبوں کو کوٹہ کے مطابق گندم فراہم کی جا رہی ہے اور ملک کے کسی حصے میں گندم کی قلت نہیں ہے، جب صوبائی حکومتیں گندم جاری کرتی ہیں تو آٹے کی قیمت خود بخود کم ہوتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاسکو گندم کی خریداری کی ذمہ داری ہے اور تمام صوبے گندم کے معاملہ میں پاسکو سے رابطہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت درآمدی اشیاء خوراک پر انحصار کم کرنے اور مقامی پیداوار میں اضافہ پر توجہ دے رہی ہے، گندم اور تیلدار اجناس و بیج کی پیداوار میں اضافہ ہماری ترجیح ہے، گذشتہ سال پاکستان نے 4.5 ارب ڈالر مالیت کا خوردنی تیل اور 2 ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کی، ملک میں گندم کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلئے حکمت عملی طے کی جا رہی ہے تاکہ شہریوں کو معقول قیمتوں پر وافر مقدار میں گندم فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ شارٹ فال کو اوپن مارکیٹ میں گندم خریدنے سے پورا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اتار چڑھائو آتا ہے، حکومت نے کم آمدنی والے طبقات کو حکومتی نرخوں پر گندم کی فراہمی کیلئے 18 سیل پوائنٹ قائم کئے ہیں، اس کے علاوہ فلور ملوں کی گندم کی پسائی کی صلاحیت کو جانچنے کیلئے معائنہ بھی کیا جا رہا ہے تاکہ تمام ملز مقامی ضروریات کے مطابق وافر مقدار میں آٹا فراہم کر سکیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ گندم کی مجموعی خریداری میں حکومت کا حصہ 20 سے 21 فیصد ہوتا ہے جبکہ 80 فیصد خریداری نجی شعبہ کرتا ہے، گذشتہ سال گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے مقرر کی گئی تھی جبکہ رواں سال امدادی قیمت 3 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں نے بھی 40 کلوگرام گندم کی قیمت 3 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ سندھ حکومت نے امدادی قیمت 4 ہزار روپے مقرر کر دی ہے۔