سکھر ۔ 12 اپریل (اے پی پی):آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا ہے کہ کچے میں ڈاکؤں کے خلاف آپریشن کے لئے اگر ہمیں جدید اسلحہ نہیں دیا گیا تو پاک فوج اور رینجرز سے مدد طلب کی جائے گی ، کچے میں 30 ڈاکو مارے جا چکے ہیں ، کچے میں آپریشن جاری رہے گا ۔ ان خیالات کا اظہار انهوں نے سکھر پریس کلب میں میٹ دی پریس سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ حکومت سے اتنا بجٹ مل سکے کہ یہ محکمہ ایمانداری سے کام کر سکے اور کرپشن کا الزام ختم هو جاۓ ۔ ماضی میں ہمارے تھانے کرپشن کے پیسوں پر چلتے تھے،ایسا پورے پاکستان میں تھا کہ تھانوں کا بجٹ نہیں تھا، سندھ حکومت نے کراچی کے تمام تھانوں کو بجٹ دیدیا ہے، مستقبل میں اندرون سندھ کے تھانوں کو بھی بجٹ ملے گا ۔آئی جی سندھ نے کہا کہ کراچی میں یومیہ 225 کے قریب اسٹریٹ کرائم ہوتے ہیں،اس میں زیادہ کرائم موٹر سائیکل چوری کا ہے، اس پر قابو پالیا جائے گا ۔سندھ حکومت امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے پولیس کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے، منشیات ،گٹکا ماوا معاشرے میں بہت حد تک پھیل چکا ہے،جو اہلکار اس کام میں ملوث ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ 60 فیصد اسلحہ کی خریداری کیلئے ہمیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، وه ہم خرید کر رہے ہیں ، چالیس فیصد اسلحہ خریداری کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومتیں آپس میں رابطے میں ہیں ۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ کچے کے آپریشن میں تیس ڈاکو مارے گئے ہیں،سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے، پہلے مرحلے میں ہم 60 فیصد اسلحہ خرید رہے ہیں اس کے بعد کچے کے آپریشن میں مزید تیزی آئے گی۔ جدید اسلحہ کی خریداری اور استعمال پر پولیس جوانوں کی ٹریننگ پر بات چیت چل رہی ہے امید ہے جدید اسلحہ ضرور ملے گا،اگر ہمیں جدید اسلحہ نہیں ملتا تو کچے کے آپریشن کیلئے رینجرز اور پاک فوج کی مدد طلب کی جاسکتی ہے، کچے میں آپریشن کے حوالے سے مجھ پر کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں ہے ۔ انهوں نے کہا کہ سکھر میں میری کبھی پوسٹنگ نہیں ہوئی اب موقع ملا تو حاضر ہوگیا۔میری سروس تیس سال سے زائد ہوچکی ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ پولیس والا آدھا صحافی اور صحافی آدھا پولیس والا ہوتا ہے۔ ہماری صفوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کے کام قابل ستائش نہیں ہوتے مگر بہت ایسے ہیں جو ناقابل فراموش بھی ہیں۔جتنا احتساب پولیس محکمے میں ہے اتنا کسی محکمے میں نظر نہیں آتا۔ یہاں کا افسر اپنے افسر کے خلاف مقدمہ درج کرتا ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ پولیس کے پاس اتنا بجٹ ہو کہ ایمانداری سے کام کرنے والے کا گذارا ہو۔ کم از کم وہ پولیس اہلکار جو بہتر اور ایمانداری سے کام کرنا چاہتے ہیں انکو وہ ماحول فراہم ہو جس میں وہ کام کر سکیں۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے اور وہاں کرائم بھی ہے مگر ہمیں ملکر کام کرنا ہوگا۔کراچی میں اب کوئی نوگو ایریا نہیں ہے۔ پہلے سکھر اور خیرپور اضلاع میں اغوا جیسی وارداتیں عام ہوچکی تھیں۔ اب اس میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ اجمل ساوند کے شہادت سے سوسائٹی کا بڑا نقصان ہے، آج شہید کے خاندان سے ملا،ان کا کہنا تھا ہم قبائلی تصادم نہیں بلکہ قانون کے تحت کارروائی چاہتے ہیں۔ہم اجمل ساوند کے خاندان کے ساتھ مل کر قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔