سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں لیکن الیکشن کے وہ فیصلے جو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لئے مسلط کرائے جائیں  وہ نا قابل قبول ہوتے ہیں ، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب

22

اسلام آباد۔7اپریل  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے  کہا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کے بعد چارججز کا فیصلہ مکمل ہو چکا ہے ،   پارلیمان اور 12 سیاسی جماعتیں جو کہہ رہی تھیں یہ فیصلہ اس کی توثیق ہے ، سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں لیکن الیکشن کے وہ فیصلے جو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لئے مسلط کرائے جائیں  وہ نا قابل قبول ہوتے ہیں ،پٹیشن مسترد ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ فل کورٹ بنا کر فیصلہ لے لیں تا کہ پاکستان کی عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہوسکے ۔وہ جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات  مریم اورنگزیب نے کہا کہ پچھلے دو ،تین ماہ سے ملک کے اندر جو سیاسی عدم استحکام اور جو عدالتی کارروائی ملک کی سیاست پر اثر انداز ہورہی ہے اس پر ایک بڑا فیصلہ آیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کی اس لئے بھی اہمیت ہے کہ چار ججز جنہوں نے پنجاب ،کے پی کی الیکشن پٹیشن کو مسترد کیا تھا  وہ فیصلہ مکمل ہوجاتا ہے،  آج کے فیصلے میں نہ صرف عدالتی کارروائی پر سوالیہ  نشان ہے بلکہ واضح طور پر کہا ہے نہ بنچ سے الگ ہوئے نہ ہی معذرت کی تھی اور وہ اپنے ساتھی چار ججز کے فیصلے پر متفق ہیں  ۔ انہوں نے کہا کہ ناقابل سماعت اور مسترد شدہ پٹیشن پر چیف جسٹس نے تین رکنی بنچ بنایا ،جب پٹیشن ہی نہیں تو سماعت کس  چیز کی ہوئی ہے اور فیصلہ کس چیز کا آیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پٹیشن مسترد ہونے کے باوجود اس ملک کو بنانے والی سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ فل کورٹ بنا کر فیصلہ لے لیں تا کہ پاکستان کی عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہوسکے ، آئینی سوالات پر فل کورٹ لازمی تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں لیکن الیکشن کے وہ فیصلے جو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لئے مسلط کرائے جائیں  وہ نا قابل قبول ہوتے ہیں ، یہ الیکشن کا معاملہ نہیں رہا  ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ عدالتی کارروائی جو کسی سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال ہو اس کی اجازت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں ، ایک سیاسی پہلو ہے اور ایک عدالتی پہلو ہے جب عدالتی کارروائی متنازعہ ہو جائے ، اکثریتی ججز کا  بنچ نہ مانے ، سپریم کورٹ کے اندر تقسیم ہو وہ عوام کیسے مانے؟ انہوں نے کہا کہ   ملک کی عدالتی تاریخ ، آئینی تاریخ میں کبھی ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ ایک پٹیشن خارج ہو  اور اس کو سپر یم کورٹ کی اکثریت خارج کر دے تو اس پر تین بنچ بنا دیئے گئے ہوں   ۔ انہوں نے کہا کہ ایک تاثر ہے کہ ہر اس کیس میں جس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنا ہے تو ایک مخصوص جج کو بنچ میں شامل کیا جاتا ہے ۔ وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس آئینی بحران کا آغاز ہی ازخودنوٹس سے ہوا ہے،،اگر کسی فیصلے پر سپر یم کورٹ کی اکثریت تقسیم  ہو ، ایک لاڈے ، فارن ایجنٹ ، آئین شق کی سہولت کاری ہو وہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام کہاں سے شروع ہوا ، عمران خان  حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوجائے ،سپیکر ڈپٹی سپیکر  کے ذریعے غیر آئینی کام کرایا  جانا، صدر مملکت سے اسمبلی تحلیل کرائی  گئی ہو ، استعفی دیئے گئے اور پھر واپسی کے لئے عدالت سے ریلیف ، آئین کے آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ لکھنا ، حمزہ شہباز  اور بزدار کیس میں الگ فیصلے ، سائفر جس پر سارا تمائشا کیا گیا وہ محسن نقوی پر آکر رک گیا ، سی سی پی او لاہور کیس میں 90 دن الیکشن کا  ازخود نوٹس سے نکلنا  ،یہ سب   قوم کے سامنے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس کو پی ٹی آئی نے وزارت خزانہ کی کرسی سے کان پکڑ کر اتار دیا اس سے عدالت میں بلا کر معیشت کا پوچھا جاتا ہے، کیا الیکشن صرف پی ٹی آئی نے لڑنا تھا اور کیوں 12 سیاسی جماعتوں کو نہیں سنا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کب کرانا ہے اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے ،عمران خان نے یہ فیصلہ نہیں کرنا ہے  ۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال،  آئین کی مرضی کے مطابق تشریح ، مسترد شدہ پٹیشن پر تین رکنی بنچ بنا کر دیا گیا فیصلہ کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں الیکشن آئینی طریقے سے ہونے چاہیئیں  ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ  قومی سلامتی  کمیٹی کا تفصیلی اجلاس ہوا جو کہ چار گھنٹے تک جاری رہا ، اس اجلاس میں دہشت گردی کی لہر کا بھی جائزہ لیا  گیا،  دہشت گردی 2018 میں ختم ہو گئی تھی ، قومی ایکشن پلان نواز شریف نے دیا ،2018 کے بعد وہ ہی دہشت گردی  عمران خان کی وجہ سے واپس آئی ، دہشت گردوں کو دعوت نامے بھجوا کر  عمران خان نے آباد کرایا ۔ انہوں نے کہا کہ  جو قربانیاں ہماری مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداوں اور عوام نے دیں تھیں  ، اس کے لئے بہت قربانیاں دیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے امن و امان سے  متعلق اجلاس کو بریفنگ دی ، اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ قومی ایکشن پلان پر مربوط عمل درآمد یقینی بنا یا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ متنازعہ فیصلے کی واپسی کی بات ہورہی ہے ،اس پر کیسے توہین عدالت ہوسکتی ہے ۔  انہوں نے کہا کہ چار ججز کے فیصلے کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ کوئی پٹیشن ہی نہیں ہے ، اس پر چیف جسٹس نے خود اپنی سربراہی میں بنچ بنا کر فیصلہ کر دیا۔