شکرگڑھ ،24 مئی(اے پی پی ): چڑیوں کی چوک اور کوئل کی کوک کبھی پیام صبح ہوا کرتی تھی، چڑیوں کا چہکنا صبح سویرے بیداری اور حمدوثنا کےلئے ایک قدرتی الارم بھی تھا، مگر بڑھتی آبادی، خواہشات اور پکے قلعہ نما گھروں نے صحن میں گھنے درختوں کی چھاؤں اور عالم پرند بالخصوص چڑیوں سے انکے گھونسلے بھی چھین لئے ہیں تاہم مصنوعی پن کے شکار اس معاشرے میں رشید پورہ کے رہائشی کلیم اللہ نوجوان نے چڑیوں کو پھر سے معاشرے کا حصہ بنانے کی ٹھان لی ہے۔
کلیم اللہ اپنی کمائی سے چڑیوں کے لئے گتے کے بنے کھونسلے خریدتا ہے، اور اپنے قرب وجوار میں دیواروں پر نصب کرتا ہے، اب تک شہر بھر میں دو سو سے زائد گھونسلے لگا چکا ہے اور چڑیوں کو پھر سے انسانی معاشرت اور ثفاقت کا حصہ بنا رہا ہے ۔
کلیم اللہ نے کہا ہے کہ وہ شہر سے باہر مضافات میں بھی پرندوں کے گھونسلے بنانا چاہتا ہے مگر محدود وسائل اسکی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
کلیم نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجابی معاشرت میں صنف نازک کے لئے استعارے کے طور پر استعمال ہونے والی ان چڑیوں کی، غیر ارادی نسل کشی اور نقل مکانی کو روکنے کے لئے حکومت اور مخیر حضرات کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے