سابق دور میں پیمرا آرڈر سے یک جنبش میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئیں، پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءتمام صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے تیار کیا گیا؛مریم اورنگزیب

25

اسلام آباد،22جولائی(اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سابق دور میں یک جنبش پیمرا آرڈر سے میڈیا پر پابندیاں عائد کی جاتی رہیں، پی ٹی آئی دور میں پی ایم ڈی اے کا کالا قانون لانے کی کوشش کی جس کی تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا تنظیموں نے مخالفت کی، پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءتمام صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے تیار کیا گیا، صحافیوں کے حقوق کے لئے ہم سب اکٹھے بیٹھے، میڈیا نے خود اس بل میں اپنی ذمہ داری کا تعین کیا ہے، یہ بل حکومت کا نہیں، یہ پاکستان، پاکستان کے عوام، میڈیا اور صحافیوں کا بل ہے جس میں صحافیوں کے حقوق کو محفوظ بنایا گیا ہے، اس میں صحافتی تنظیموں کی نمائندگی شامل ہے، انہیں فیصلہ سازی کا اختیار دیا گیا ہے۔

 ہفتہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میں پیمرا سے لائسنس یافتہ 140 چینلز ہیں ان میں 35 نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز، 52 تفریحی چینلز، 25 ریجنل چینلز، نان کمرشل اور ایجوکیشن کے 6، سپورٹس کے 5، ہیلتھ اور ایگرو کے 7 چینلز، ایجوکیشن کمرشل کے 10 چینلز ہیں۔ پیمرا آرڈیننس 2002ءکے بعد آج 2023ءہے جہاں میڈیا کے اندر اتنا تنوع پیدا ہو چکا ہے کہ اس میں مختلف چینلز آ گئے ہیں، ہم سب سوشل میڈیا کے ایک نئے دور سے گذر رہے ہیں جہاں اظہار رائے کیلئے پلیٹ فارم متعارف ہو چکے ہیں، یہ تمام چینلز سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سالہ دور میں میڈیا پر سینسر شپ رہی، میڈیا کی زبان بندی کی گئی، سابق وزیراعظم عمران خان کو میڈیا پریڈیٹر کا خطاب ملا، انہیں یہ خطاب ان کے سیاسی حریفوں یا پاکستان کے کسی ادارے نے نہیں بلکہ عالمی صحافتی اداروں نے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے دیا۔ اس وقت چلتے پروگرام پیمرا کے آرڈر سے یک جنبش بند کر دیئے جاتے تھے، صرف چیئرمین پیمرا کے دستخطوں سے نوٹیفیکیشن جاری کر کے صحافیوں اور چینلز پر پابندی عائد کر دی جاتی تھی۔

 وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ پچھلے دور میں صحافیوں کے پیٹ میں گولیاں ماری گئیں، ان کی ناک کی ہڈیاں توڑی گئیں، پسلیاں توڑی گئیں، انہیں اغواءکیا گیا، ان کے چلتے پروگرام بند کئے گئے، انہیں جیلوں میں بھیجا گیا۔ مریم اورنگزیب نے میر شکیل الرحمان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میر شکیل الرحمان کو اس کیس میں گرفتار کیا گیا جس میں اب سب بری ہو چکے ہیں۔ انہیں نواز شریف سے سیاسی انتقام لینے کے لئے نیب کے کیس میں جیل میں بھیج کر یہ پیغام دیا کہ اگر یہ جیل جا سکتے ہیں تو پھر میڈیا کے دیگر لوگوں پر بھی مقدمات بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سالوں کے دوران پی ایم ڈی اے کا کالا قانون نافذ کر کے میڈیا کی زبان بندی اور گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا تنظیموں نے اس قانون کی مخالفت کی اور اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سال میں ہم نے دیکھا کہ اس وقت کے وزیر اطلاعات صحافیوں کے منہ پر تھپڑ مارتے تھے، وہ دھمکیاں دیتے تھے کہ میں دیکھ لوں گا کہ پی ایم ڈی اے کا قانون کیسے منظور نہیں ہوتا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اپریل 2022ءمیں مجھے وزیر اطلاعات کا منصب ملا تو 23 اپریل 2022ءکو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ میرا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای، ایمنڈ، پی ایف یو جے کے نمائندے اس جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں شامل تھے، میں ان تمام تنظیموں کا شکریہ ادا کرتی ہوں انہوں نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءکی تیاری میں میری معاونت کی، انہوں نے میری رہنمائی کی کہ کس طرح ہم میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ اور ایک ذمہ دار میڈیا کے قیام کے لئے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ 11 مہینوں کے دوران متعدد اجلاس ہوئے، تمام تنظیموں کے ساتھ اس بل پر مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔

 وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے دنیا کے کئی ممالک میں موجود ریگولیٹری باڈیز کے اندر صحافیوں کے حقوق، اخلاقیات پر مبنی میڈیا، میڈیا کی ذمہ داریوں اور فیک نیوز کے حوالے سے موجود قوانین کا جائزہ لیا، پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءبین الاقومی بیسٹ پریکٹسز پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی مرتبہ پیمرا قانون میں تمام میڈیا تنظیموں کی معاونت سے ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کی تعریف کو شامل کیا، ہم نے اس فرق کو واضح کیا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن میں کیا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیوز پیپرز ملازمین کے لئے آئی ٹی این ای موجود تھا لیکن الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی فورم موجود نہیں تھا، صحافیوں کو سیاسی بنیادوں پر نوکریوں سے فارغ کر دیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے اکٹھے بیٹھے۔ یہ حکومت کا بل نہیں، یہ میڈیا، پاکستان اور پاکستان کے عوام کا بل ہے، اس بل میں آج صحافیوں کے حقوق کو محفوظ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا ترمیمی بل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی منظور شدہ قراردادوں اور صحافیوں کی مشاورت سے بنایا گیا، اس بل میں برطانیہ، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، فرانس، انڈیا، برازیل، روس، یورپی یونین، آسٹریلیا ممالک میں میڈیا کے حوالے سے موجود قوانین کو دیکھتے ہوئے شقیں شامل کی گئیں۔

 وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ یو این کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی قراردادوں کے مطابق بل کو تیار کیا گیا، آج کچھ لوگوں کو اس لئے تکلیف ہے کہ یہ بل کیسے بن گیا، کس طرح تمام میڈیا اس پر متفق ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا نے خود اس بل میں اپنی ذمہ داری کا تعین کیا ہے، جو لوگ اس بل پر باتیں کر رہے ہیں انہوں نے یہ بل نہیں پڑھا۔انہوں نے کہا کہ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کی تعریف سمیت بل کے ایک ایک پوائنٹ پر طویل مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءمیں ترامیم کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس بل کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔

 اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے میڈیا کو پیمرا آرڈیننس 2002ءاور پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءکا تقابلی جائزہ بھی دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کے ابتدائیہ میں براڈ کاسٹنگ کے مواد میں ترمیم کی گئی ہے جس میں خبر کی جگہ مصدقہ خبر، تحمل و برداشت، معاشی و توانائی کی ترقی، بچوں سے متعلق مواد، کھیلوں، مذہبی ہم آہنگی اور ٹیکنالوجی کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی تفریح، تعلیم اور معلومات کے دائرہ کو وسیع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کے ابتدائیہ میں شق پانچ میں ترمیم کر کے الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند بنایا گیا ہے۔ بروقت ادائیگی سے مراد الیکٹرانک میڈیا ملازمین کو دو ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔ 20 اے کی نئی شق میں الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کا پابند بنایا گیا ہے۔ 20 بی کی نئی شق میں الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا اور شکایات کونسل کے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے تمام فیصلوں، احکامات کی پاسداری کا پابند بنایا گیا ہے۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اشتہارات متعلقہ الیکٹرانک میڈیا کو فراہم نہیں کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں صحافی کی تعریف میں میڈیا ورکرز کو شامل کیا گیا ہے۔ لائسنس یافتہ میڈیا ہاؤس کا ملازم چاہے وہ ڈیسک پر ہو یا ڈی ایس این جی میں بیٹھا ہو یا کیمرہ مین ہو، وہ میڈیا ورکر کی تعریف میں شامل ہوگا اور اسے پیمرا کے ابتدائیہ میں شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے حوالے سے ترمیم کی گئی ہے۔ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے اوپر اس سے پہلے 2002ءکے قانون میں ہتک عزت کی تعریف موجود ہے۔ اس قانون کے تحت متاثرہ شخص کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا تھا، ہم نے اس بل میں ڈس انفارمیشن کی تعریف کو شامل کیا، “ڈس انفارمیشن” سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، ساز باز سے تیار کردہ یا جعلی ہو، ایسی خبر “ڈس انفارمیشن”  کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لئے دی گئی ہو۔ متعلقہ شخص کا موقف لئے بغیر دی گئی خبر “ڈس انفارمیشن“ کی تعریف میں شامل ہوگی۔ متاثرہ شخص کا موقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طور اس کے خلاف ”ڈس انفارمیشن”  کو دی گئی ہوگی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مس انفارمیشن سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہو گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کا تعین کرتے ہوئے چینل پر پابندی صرف چیئرمین پیمرا لگاتا تھا، اب اس کا تعین تین رکنی کمیٹی کرے گی اور اس کا فیصلہ پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ورکرز کونسل آف کمپلینٹ میں اپنے مسائل کے حوالے سے شکایت کر سکتے ہیں، یہ شکایات کونسل ہر صوبے میں موجود ہوں گی۔ شکایات کونسلز الیکٹرانک میڈیا میں کم از کم تنخواہ کی حکومتی پالیسی، بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کے نفاذ کو یقینی بنائیں گی۔

 مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیمرا کی جانب سے پہلے یکطرفہ ریگولیشن ہوتی تھی، اب اس میں میڈیا کو شراکت دار بنایا گیا ہے، چیئرمین پیمرا سے اختیارات لے کر ممبرز کمیٹی اور کونسل آف کمپلینٹ کو دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی چینل کو معطل کرنے، پابندی لگانے یا لائسنس جاری کرنے کا چیئرمین پیمرا کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے، یہ اختیار اب کمیٹی کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پیمرا کے اندر میڈیا کی نمائندگی موجود نہیں تھی، پہلی مرتبہ پی ایف یو جے اور ورکنگ جرنلسٹس کو نمائندگی دی گئی ہے جبکہ پیمرا اتھارٹی میں اہم عہدوں پر دو خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءمیں پہلی دفعہ میڈیا کو فیصلہ سازی میں شراکت دی گئی ہے، ریگولیشن کو کو ریگولیشن میں تبدیل کیا گیا ہے۔ میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز، صحافی اور صحافتی تنظیموں کی پیمرا میں نمائندگی ہوگی تاکہ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کے حوالے سے قانون کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔