سیاسی جماعتیں معیاری تعلیمی اصلاحات کے لیے اقدامات اُٹھائیں؛ تعلیمی کانفرنس

13

اسلام آباد،02 اگست(اے پی پی ):ادارہ برائے سماجی انصاف ، ادارہ تعلیم وآگاہی اور پاکستان کمیشن برائے  انسانی حقوق کے اشتراک سے تعلیم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین تعلیم، وفاقی وزارت تعلیم اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے  منصفانہ ، شراکتی اورمعیاری تعلیم کے لیےنصاب تعلیم، درسی کُتب اور پالیسیوں میں مثبت اصلاحات متعارف کرانے پر اتفاق کیا۔

کانفرنس کے مقررین میں ڈاکٹر بیلہ رضا جمیل، ڈاکٹر عبدالحمید نیئر، پیٹر جیکب، وجاہت مسعود، ڈاکٹر یعقوب خان بنگش، صائمہ انور، وسیم اجمل اور ڈاکٹر شعیب سڈل شامل تھے۔ کانفرنس میں شریک سیاستدانوں  بشمول سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر ( پاکستان پیپلز پارٹی)، ایم این اے مہناز اکبر عزیز ( پاکستان مسلم لیگ ن)،ایم این اے زبیدہ جلال ( بلوچستان عوامی پارٹی)، سینیٹر ثناء جمالی اور عمار علی جان ( حقوق خلق پارٹی)  نے تعلیمی اصلاحات  کے حوالے  سے متعلقہ سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر پیش کیا۔ فاریہ خان نے کانفرنس کی میزبانی  کے فرائض انجام دیئے ، جبکہ حارث خلیق اور منیزے جہانگیر نے مختلف موضوعات پر مباحثے کی نظامت کی۔

 ادارہ تعلیم  و آگہی کی سربراہڈاکٹر بیلہ رضا جمیل نے کہا کہ حکومت  دستور پاکستان کے  آرٹیکل  25اے تعلیم کے بنیادی آئینی حق پر عمل کرنے میں نا کام رہی  ہے جبکہ  پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت طے شدہ تعلیمی اہداف حاصل کرنے میں جنوبی ایشیا میں کے بیشتر ممالک سے پاکستان پیچھے رہا۔ بد قسمتی سےسیاسی جماعتیں انتخابی منشوروں  میں بار بار اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہیں جس سے لاکھوں بچوں خصوصاً لڑکیوں اور پسماندہ گروہوں کی زندگیوں  پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آنے والے انتخابات کے ذریعے سیاسی جماعتیں تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری اور  اصلاحات  متعارف کروانے کا وعدہ کرکے اپنے عزم کا اعادہ کر سکتی ہیں ۔

ڈاکٹر  عبد الحمید نیئر نے کہا کہ ریاست دستور پاکستان کے  آرٹیکل25 اے پر عمل درآمد کرنے اور 16 سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے تقریباً نصف بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔  اگرسیاسی جماعتیں تعلیم کو بہتر کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اُنھیں اپنے انتخابی منشور میں تعلیم کے لیے مختص رقم کو جی ڈی پی کے 6 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کرنا چاہیے۔

 ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 22الف اور 25 اے   میں بیان کردہ بنیادی انسانی حقوق پر عملد رآمد حکومت کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے کہ بلا امتیاز معیاری تعلیم  کے ہدف کے حصول کے لیے با معنی اقدامات  اُٹھا   ئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سول سوسائٹی  بالخصوص انسانی حقوق اور تعلیم کے ماہرین   ملک میں ہونے والے عام انتخابات 2023 سے پہلے اور بعد میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مثبت تعلیمی اصلاحات کے لیے موثر رابطے جاری رکھیں گے۔

وجاہت مسعود نے 19 جون 2014 کو جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کو سراہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 20، 22 (1) اور 25 اے پر  اس وقت تک عمل درآمد ممکن نہیں جب تک قوانین اور پالیسیاں سے مذہب وجنس کی بنیاد پر امتیازات دور نہ  ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان کو شہریوں کی برابری کو یقینی بنانے اور شناخت کی بنیاد پر تقسیم کو فروغ دینے والے گروہوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر پروفیسر یعقوب خان بنگش نے کہا کہ شمولیت، تکثیریت اور تنوع کو فروغ دینے کے لیے کلاس رومز کے اندر اور باہر اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے درمیان سماجی میل جول  اور مکالمہ ہونا چاہیے۔

وفاقی سیکرٹری، وفاقی  وزارت تعلیم وسیم اجمل نے یقین دلایا کہ وزارت آئین کے آرٹیکل 22(1) پر عمل درآمد کے لیے لازمی مضامین میں موجود مذہبی ہدایات اور نفرت انگیز  مواد کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔صائمہ انور نے کہا کہ نصاب تعلیم اور درسی کتب کو تنقیدی سوچ اور تنوع کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے ، اقلیتوں کو لازمی اسلامی تعلیم کے مناسب متبادل تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بچوں میں مثبت اقدار پیدا کرنے کے لیے معیاری تعلیم سیاسی جماعتوں کی ترجیح ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو یکساں قومی نصاب  اورمدارس سے فارغ التحصیل افراد کی بطور اساتذہ برتی جیسے اقدامات کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ اس سے اسکولوں کی دینی مدارس میں تبدیلی کا اندیشہ ہے جس سے معاشرے میں تفریق و تقسیم بڑھے گی۔سینیٹر ثناء جمالی نے کہا کہ سول سوسائٹی، حکومت اور سیاست دانوں کو  تمام بچوں کو تعلیم دینے کے لیے بامقصد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے  ۔

ایم این اے زبیدہ جلال نے کہا کہ تعلیمی اصلاحات کے حصول میں ہمارا بنیادی مقصد منصفانہ تعلیمی ماحول پیدا کرنا ہونا چاہیے، جہاں ہر طالب علم معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکے اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بامعنی اصلاحات کی کوشش کرنی چاہیے ۔

ایم این اے مہناز اکبر عزیزنے تعلیم کے حق سے محروم بچوں کے سکول میں اندراج اور  معیاری تعلیم پر زور دیا۔ اُنھوں نے تعلیم  کےحوالے سے سیاسی جماعتوں کے فورم  کی حمایت کی، اور ہر  رکن پارلیمان کے اپنے حلقے میں تعلیم سے متعلق اقدامات کے حوالے سے اسکور کارڈ  متعارف کرنے کی تجویز پیش کی۔

حقوق خلق پارٹی کے صدر ڈاکٹر عمار علی جان نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں تنقیدی سوچ، مکالمے اور بحث و مباحثے کی اجازت ہونی  چاہیے۔یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم تعلیم کو  قومی سیکورٹی کے تناظر میں دیکھنا چھوڑ دیں گے ۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ ڈگریوں کے حامل اتنے روشن خیال نوجوان بے روزگار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو معیشت کی منصوبہ بندی کے ساتھ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء کے لیے مناسب ملازمتوں کی دستیابی یقینی بنانا ہو گی۔