اسلام آباد، 08 جون (اے پی پی ): چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد ہمیں اپنے طرز زندگی میں تبدیلی کا سامنا ہے۔ عوامی رویوں میں ماحول دوست تبدیلی ماحولیاتی آلودگی سے نبردآزما ہونے کے لئے انتہائی اہم ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نےلاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (ایل جے سی پی) کے زیر انتظام سپریم کورٹ آف پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالہ سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 52 سال بعد جو فیصلہ ماحولیات کو ماحولیاتی انحطاط سے بچانے کا کیا تھا اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ زمین بیمار ہے، اور بتا رہی ہے کہ اس کی حالت غیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بہت سی نقصان دہ گیسوں کا اخرج کر رہی ہے اور اپنے وسائل کا تحفظ مانگ رہی ہے،ہم پلاسٹک بنا سکتے ہیں لیکن انہیں ڈی کنسٹریکٹ نہیں کر سکتے اور وہ سمندروں میں ختم ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ گوشت کے استعمال سے پانی کی بہت زیادہ کھپت پیدا ہوتی ہے جبکہ سبزیاں اس کا حل ہیں، پچھلے کئی سالوں میں چینی کا استعمال فی شخص آدھا چائے کا چمچ فی ہفتہ سے بڑھ کر کلو تک پہنچ گیا ہے۔ دنیا کے نوآباد کاروں اور غلاموں نے سب سے پہلے چینی کو ہماری زندگی میں متعارف کرایا انہوں نے اس کام کے لیے افریقہ کے لاکھوں مقامی لوگوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چینی مغربی دنیا میں سب سے زیادہ تجارت کی جانے والی اجناس کے طور پر ابھری جس کی وجہ سے انواع میں کمی ہوئی اور مونو کلچر کو فروغ ملا۔انہوں نے کہا کہ زمین ایک جاندار ہے لیکن اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا ،روحانی بحران بھی موسمیاتی بحران کی وجہ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فضول خرچی دین اسلام میں گناہ ہے، ہم قدرتی وسائل کو ختم کر رہے ہیں اور خود کو کم کر رہے ہیں، ہم نہ صرف انسانیت بلکہ پوری قوم کے محافظ ہیں۔ ہمیں ایندھن سے بھرپور سفر اور سرگرمیوں پر انحصار کم کرکے ماحولیات کے تحفظ کے لیے اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری اور میڈیا کے غلام نہ بنیں۔ سائنس افق سے باہر بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکتی ہے۔