آئی ایم ایف سے نجات کیلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ اور برآمدی صنعتوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی طرف جانا ہوگا؛وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

7

اسلام آباد،28جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ زرعی شعبہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کےلئے قانون سازی  کی جائے گی، آئی ایم ایف سے نجات کےلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ اور برآمدی صنعتوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی طرف جانا ہوگا،  ریٹیلرز ، رئیل اسٹیٹ ، بلڈرز سمیت دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے ہی ٹیکس دہندگان کو ریلیف مل سکتا ہے،توانائی بحران پر قابو پانے کےلئے مستقل لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے،  ٹیکس نادہندگان ملک اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، وزیراعظم   ایف بی آر میں اصلاحات کی  خود نگرانی کر رہے ہیں ۔

 اتوار کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے  پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقامی اور عالمی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرنے کےلئے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جبکہ دورہ چین کے حوالے سے بھی آگاہ کرنا مقصود تھا، ملکی سطح پر اس وقت ٹیکس اور ایف بی آر کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے، ہم نے اگر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہے اور اسے 13 فیصد تک لے جانا ہے تو ہمیں سہولیات کو بھی دیکھنا ہوگا، سیلز ٹیکس ، آئی ٹی ، انکم ٹیکس ، ریفنڈ اور ڈیوٹی ڈرا بیگز  یکم جولائی سے دینا شروع کرد یئے ہیں، اس میں تاخیر ایشو رہا ہے،68 ارب روپے اب تک ریفنڈ کئے جا چکے ہیں ،یہ صنعتوں کےلئے اہم ہے۔

 وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے  کہا کہ ریفنڈ ایڈمنسٹریشن کے نئے میکنزم کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے،تاجر دوست سکیم  متعارف کرائی گئی ہے، تاجروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کی وسعت میں ساتھ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تنخواہ دار طبقہ سے تعلق کی وجہ سے ان سے ہمدردی رکھتا ہوں ، وزارت کا منصب سنبھالنے سے پہلے میں بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتا تھا، ٹیکس نیٹ میں وسعت کےلئے ریٹیلرز اور رئیل اسٹیٹ ، ڈویلپر اور بلڈرز پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کے شکر گزار ہیں کہ وہ زرعی شعبہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کےلئے قانون سازی کریں گے، یہ تمام اقدامات درست سمت کےلئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو شعبے سے باہر ہیں اگر انہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا تو صورتحال اسی طرح چلتی رہے گی۔

 وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایف بی آر میں اصلاحات کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم خود اس کی نگرانی کر رہے ہیں اور ہر ہفتے اس حوالے سے جائزہ اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں، ڈیجیٹائزیشن کی وجہ سےگزشتہ دو ماہ میں 49 لاکھ نان فائلر کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے پاس اثاثے موجود ہیں وہ گاڑیوں کے حامل ہیں، بیرون ملک سفر کرتے ہیں لیکن فائلر نہیں ہیں، انہیں نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں، ڈیجیٹائزیشن کی وجہ سے کرپشن میں کمی ہوگی۔ انہوں  نے کہا کہ اس عمل سے 600 ارب روپے جعلی ٹیکس کی نشاندہی ہوئی جس میں سے صرف ایک ارب روپے کی ریکوری ہوئی ۔ اس کے علاوہ کسٹم ٹیکس 50 سے 200 ارب روپے کی انڈر انواسنگ سامنے آئے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جو سیکٹر ٹیکس  نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کےلئے  میڈیا سمیت ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہم نے تاجروں کی رجسٹریشن کا عمل آسان ترین بنا دیا ہے، ہمیں ٹیکس کے عمل کو مزید آسان بنانے کےلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ  انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کےلئے کنسلٹنٹس اور وکلا کی خدمات کی ضرورت نہ پڑے۔  وزیر خزانہ نے کہا کہ رائٹ سائزنگ کے حوالے سے کمیٹی کام کر رہی ہے ، ہم نے 5 وزارتوں کا جائزہ لیا ہے جس میں وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان، وزارت سیفران  ،صنعت وپیداوار، آئی ٹی و ٹیلی کام  اور صحت شامل ہیں، ان کے انضمام یا کسی بھی تجویز کا حتمی فیصلہ وزیراعظم کریں گے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی بھی 2019 میں ایک جامع رپورٹ  آئی تھی اس کا بھی جائزہ لیا ہے، ہم ملازمین کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائیں گے، جو وزارتیں یا شعبے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں وہ صوبوں کے پاس ہی جانے چاہئیں، یہ وفاق  کے اخراجات میں کمی کےلئے بھی اہم ہے، یہ باتیں کرنے کا نہیں  بلکہ کام کرنے کا وقت ہے ، اس پر عملدرآمد کا منصوبہ بھی تشکیل دیا جائے گا۔

 وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق آئل کی انٹرنیشنل مارکیٹ ،روپے کی قدر میں کمی بیشی سے ہے تاہم اس سے غیر ضروری فائدہ اٹھانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، اس کی روک تھام کےلئے ضلعی اور صوبائی سطح پر پرائس مانیٹرنگ کمیٹیاں اپنا کردار ا دا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر اویس لغاری کے ہمراہ چین کا دورہ کیا ہے، اس موقع پر توانائی  اور پانڈہ بانڈ کے اجرا کے حوالے سے بات ہوئی ، چینی حکام نے ایف بی آر حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو سراہا،  پاکستان کے چین کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں ، انہوں نے آئی ایم ایف بورڈ میں بھی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے، چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارے اچھے دوست ثابت ہوئے ہیں، آئی ایم ایف کی سطح پر بھی انہوں نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔

 وزیرخزانہ نے کہا کہ ماضی میں آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں، حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے میکرو اکنامک استحکام آیا، روپے کی قدر اور زر مبادلہ کے ذخائر مستحکم رہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو تو اس کےلئے ہمیں برآمدات میں اضافے ، بیرونی سرمایہ کاری جو ہمیں برآمدات کی طرف لے کر جائے  ہمیں اس پر سوچنا ہوگا۔