استصواب رائے کے ذریعہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو یقینی بنانا مسئلہ کشمیر کے حل کا واحد پائیدار آپشن ہے؛ سیمینار سے مقررین کا خطاب

14

کراچی، 05 اگست (اے پی پی):یوم استحصال کشمیر کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں مقررین نے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانے تنازعہ کے جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل کو خطے میں امن اور استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے ۔اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے ذریعے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو یقینی بنانا ہی مسئلہ کو جمہوری طریقے سے حل کرنے کا واحد پائیدار آپشن ہے۔

سیمینار کا انعقاد سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز سندھ نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ریجنل ڈائریکٹوریٹ کراچی کے تعاون سےکیا۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر  سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز سندھ سفیر(ر)قاضی ایم خلیل اللہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، انسانی حقوق کونسل اور اسلامی ممالک کی تنظیم سمیت ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھاتا رہا ہے تاکہ اس تنازعہ کو حل کیا جا سکے۔مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔بھارت نے 5 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ فورسز کی بھاری تعیناتی کی اور مقبوضہ علاقے میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، نوجوانوں کا غیر قانونی اغوا، جنسی تشدد، ہراساں کرنا، غیر انسانی تشدد جیسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں جبکہ میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں اور شہری اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہیں۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کے بھارت کے غیر منصفانہ اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا واضح موقف ہے کہ کشمیر ایک دو طرفہ مسئلہ ہے اور بھارت یکطرفہ اقدامات کے ذریعے متنازعہ علاقے کی حیثیت کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، سلامتی کونسل اور او آئی سی نے بھی بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو رد کیا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ریجنل ڈائریکٹوریٹ کراچی ارم تنویر نے عالمی میدان میں دوغلے پن اور دوہرے معیارات کو اجاگر کیا جہاں انسانی حقوق کی رپور ٹس میں جابر بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی نے مقبوضہ کشمیرمیں غیرمقامی ہندو آبادی کو آباد کرنے کی راہ ہموار کی اور اس کے ہندوستان کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی پر سنگین اثرات مرتب ہوئے۔انہوں نے زور دیا کہ تمام امن پسند ممالک کو ہندوستان پر زور دینا چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیرکے بے گناہ لوگوں پر مظالم اور بربریت کا خاتمہ کرے۔

ڈائریکٹر گلوبل اینڈ ریجنل اسٹڈیز سینٹر، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی سفیر (ر)غلام رسول بلوچ نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A  کی منسوخی کے جیو اسٹریٹجک اور جیو اکنامک مضمرات کے موضوع پر بات کی۔انہوں نے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ کشمیر کی ایک مخصوص زبان، ثقافت اور تہذیب ہے اور وہاں کئی صدیوں سے کشمیریت کا تصور وجود رکھتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ایشیا اسٹڈیزپروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین وصی نے مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 1947 سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے استحصال اور قتل و غارت کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے بروئے کار لاتے ہوئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیرمیں تشدد، گمشدگیوں، قتل اور جنسی حملوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی شخصیات، میڈیا کے افراد اور نوجوانوں پرظلم وجبر میں غیر معمولی شدت آئی ہے تاکہ ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کو دبایا جاسکے۔مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی اب تک کی طویل ترین بندش کے علاوہ، بھارتی میڈیا پالیسی صحافتی آزادی پر قدغن لگاتی ہے اور میڈیا کو واقعات کی خبروں کو دبانے کے لیے رسائی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کو بلدیاتی انتخابات، مظاہروں اور بھارتی فورسز کے مظالم کی کوریج کرنے سے روکا جارہا ہے جبکہ میڈیا اداروں میں سیلف سنسرشپ بھی رائج ہے۔