اسلام آباد۔20مارچ (اے پی پی):گورنرخیبرپختونخوا (کے پی کے) فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام نے پاکستان کی سلامتی پر براہ راست اثر ڈالا ہے، غیر ریاستی عناصر کی سرحد پار نقل و حرکت کے باعث دہشت گردی، سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر امن و استحکام کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز میں “سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی اور آگے بڑھنے کا راستہ” کے موضوع پر اپنے خطاب میں حکومت کے عزم اور تذویراتی اصلاحات اور پائیدار ترقی کے ذریعے امن و استحکام کے قیام کے عزم کا اعادہ کیا اور پاکستان کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبے کے اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے، کے پی کے کے عوام کی قربانیوں اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بارڈر سکیورٹی صوبائی حکومت کے لیے ایک بنیادی تشویش رہی ہے، استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنا قومی ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
گورنر نے کہا کہ تخریبی نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے منصفانہ اقتصادی ترقی، بہتر طرز حکمرانی اور سماجی ترقی لازمی شرائط ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے زور دیتے ہو ئے کہا کہ خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر اور تجارتی راہداریوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانا، ہنر مندی کی نشوونما اور بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ تعلیم کی فراہمی اور امن و استحکام کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ ہم ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ بنے ہوئے ہیں پاکستان کی جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں اور سرحدوں کے اس پار سے پیدا ہونے والے سکیورٹی خطرات کے حوالے سے گورنر کے پی کے نے کہا کہ پروپیگنڈے کا استعمال، پرتشدد انتہا پسندی کی فنڈنگ، سائبر حملے، اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کو ناکام بنانے کی کوششیں پاکستان کی داخلی سلامتی اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے مذموم عزائم کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان خطرات کو کم کرنے کے لیے بہتر انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لئے ایک مضبوط حکمت عملی بہت اہم ہے۔
صدر آئی آر ایس سفیر جوہر سلیم نے اس موقع پر ملکی اور متعدد غیر ملکی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع انداز اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں کہا کہ ایک طرف معاشی اور انسانی ترقی، فوجداری نظام میں اصلاحات اور انصاف تک رسائی، بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کو بہتر بنانے سمیت متعدد شعبوں میں پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے اور دوسری طرف تشدد بنیاد پرستوں کی جانب سے پھیلائے جانے والے مذموم بیانات کا سدباب ضروری ہے ۔انٹرایکٹو سیشن میں سفارت کاروں، فیصلہ سازوں، ماہرین تعلیم، محققین، طلباء اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔