اسلام آباد، 16 جون (اے پی پی): قومی ابلاغ و حکمت عملی یونٹ اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت یہاں سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد نوجوانوں میں برداشت، تنقیدی سوچ اور تحقیق کے رجحان کو فروغ دینا تھا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کے بڑے شہروں میں انتہا پسندی کا رجحان محدود ہو چکا ہے، اور طلبا کی اکثریت مثبت ذہنیت کی حامل ہے۔
سیمینار سے خطاب میں شرکاء نے کہا کہ مختلف یونیورسٹیوں میں مشاورتی سیشنز کے ذریعے نوجوانوں سے براہ راست مکالمہ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ حکومت اور طلبا کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مقررین نے زور دیا کہ حکومتی پالیسیوں کو بہتر ابلاغ کے ذریعے طلبا تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ انہیں یہ باور کرایا جا سکے کہ ان پالیسیوں کا مرکز و محور خود وہی نوجوان ہیں۔
تقریب میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت حال ہی میں متعارف کرائے گئے ڈیجیٹل یوتھ ہب اور اے آئی کاؤنسلر جیسے اقدامات پر روشنی ڈالی گئی، جن کا مقصد نوجوانوں کو بین الاقوامی مواقع، مہارتوں کی شناخت، اور تحقیقی معاونت فراہم کرنا ہے۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو ملک کی طاقت بن سکتی ہے مگراس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم ان کی رہنمائی کیسے کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف ڈگریاں حاصل کر لینا کافی نہیں، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ حکومتی مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور خود کو معاشی و فکری طور پر بااختیار بنائیں۔
مقررین نے کہا کہ اساتذہ کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ وہی معاشرے کی آئندہ سمت متعین کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں برداشت، تحقیق اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اداروں کو متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔