لاہور،07 جولائی (اے پی پی): وفاقی وزیر قانون، انصاف و انسانی حقوق سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین پاکستان 1973 میں درج آرٹیکلز صرف کاغذوں کی حد تک نہیں بلکہ وہ مساوات، آزادی اور حقوق کی ضامن ہیں، آئین 1973 کے آرٹیکل 36 کا تعلق پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے ہے، یہ آرٹیکل پاکستان کے آئین کے اس باب میں شامل ہے جو ریاست کے بنیادی اصولوں سے متعلق ہے اور یہ ریاست کی اخلاقی و سماجی ذمہ داریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو سول سروسز اکیڈمی میں منعقدہ ایک تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو یہ احساس دلا نا ہے کہ ملک کو ہم سب نے مل کر چلانا ہے، ہمیں مل کر معاشرت کی تعمیر کے لئے سوچنا ہوگا، پاکستان کو اس وقت محبتیں بانٹنے والوں کی ضرورت ہے، نہ کہ حکم چلانے والوں کی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں، چاہے اکثریت ہو یا اقلیت، ہمارا ایک ہی تعارف ہے،جھنڈے میں موجود سفید رنگ صرف ایک علامت نہیں بلکہ یہ رنگ ہمارے رویوں میں بھی جھلکنا چاہیے،وزیراعظم کی ہدایت پراس بات کی یقین دہانی کرانے کے لئے موجود ہوں کہ پاکستان کا وہ خواب جو قائداعظم محمد علی جناح اور ہمارے آئین نے دیکھا، وہ صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے،ہم سب ایک قوم ہیں اور ہمیں اس پاکستان کی طرف بھی دیکھنا ہوگا جو پسماندہ ہے، جسے ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سول سروس اکیڈمی نے قوم کے معمار اور خدمت گزار پیدا کرنے ہیں، یہ وہ ادارہ ہے جہاں سے ایک مشن لے کر نکلنا ہے، یہ وہ دور نہیں رہا جب ہم نوآبادیاتی دور کے انداز میں معاملات دیکھتے تھے، اب محبت، ہمدردی اور گزارشات کی ضرورت ہے، نفرت کی نہیں، سول سروسز اکیڈمی وہ درسگاہ ہے جہاں سے ایسے افسران کو نکلنا چاہیے جو قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ محبت، برداشت، اور رواداری کے علمبردار ہوں۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ کمیشن آئین پاکستان کی شقوں 20، 26، 27 اور 36 کے تحت اقلیتوں کے تحفظ، ان کے مساوی مواقع اور شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ آئینی شقیں صرف کاغذ پردرج نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہیں، جن پرعملدرآمد ہماری قومی ترقی کی بنیاد ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ اگر ہم سب مل کر دل سے کام کریں تو انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب اقلیتوں کے لئے مخصوص اقدامات کی ضرورت نہیں رہے گی اور ہر تیسرا یا چوتھا افسر اقلیتی برادری سے ہوگا۔
انہوں نے اکیڈمی کے منتظمین، خصوصی فنکاروں، اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے دعا کی۔تقریب سے سینیٹر ڈاکٹر رمیش کمار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین میں مینارٹی کے بجائے نان مسلم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ مینارٹی تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے، میری درخواست ہے کہ اکیڈمی سمیت تمام اداروں میں نان مسلم کا لفظ رائج کیا جائے۔سینیٹر رمیش کمار نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ50فیصد ہے، لیکن مقابلے کے امتحانات میں عمر کی حد کو 35 سال کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان مواقع حاصل کر سکیں۔