اسلام آباد،06 اگست ( اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف سمیت ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے۔اگربھارت ہم پر حملہ کرے گا تو ہم جواب دیں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔
مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کیخلاف بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی بہتری ہماری اولین ترجیح ہے، اسی تناظر میں اقتدار سنبھالتے ہی اپنے ہمسایہ ممالک بھارت، افغانستان اور ایران کی قیادت سے بات کی۔ ہم نے بھارتی قیادت سے کہا کہ اگر وہ ایک قدم آگے بڑہیں گے تو ہم دو قدم بڑہائیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ امریکا کا دورہ اسی کوشش کی کڑی تھی کہ ماضی میں جو بھی مسائل تھے وہ ختم ہوں تاکہ پاکستان کو استحکام ملے، ترقی ملے اور غربت کا خاتمہ ہوسکے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پلوامہ حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن اس کا سارا الزام پاکستان کے سر تھونپ دیا گیا۔ بھارت کی الزام تراشی کا مقصد الیکشن جیتنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ میں نریندر مودی کو سمجھایا کہ اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، لیکن اس وقت بھارت میں انتخابات تھے اور انہیں کشمیر میں ہونے والے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانی تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کا مقصد جنگی جنون اور پاکستان مخالف جذبات پیدا کر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا تھا، بھارت نے ڈوزیئر بعد میں بھیجا طیارے پہلے بھیجے اور پاک فضائیہ نے بھرپور جواب دیا، ہم نے ان کا پائلٹ پکڑا تو یہ بتانے کے لیے رہا کیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارتی الیکشن کے بعد پھر مذاکرات کی کوشش کیں لیکن بشکک میں بھارتی رویے کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اب ان کیساتھ بات نہیں کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کیخلاف تعصب ہے، وہاں مسلمانوں کو برابر کا شہری سمجھا نہیں جاتا۔ انڈیا کی حکمران جماعت ہندو راج چاہتی ہے۔ بی جے پی گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں کو مار دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بھارتی اقدام پلان نہیں بلکہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے۔ جب انگریز جا رہا تھا تو آر ایس ایس نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو دبا کر رکھیں گے، قائداعظم محمد علی جناح ابتدا میں ہی آر ایس ایس کا نظریہ سمجھ گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے پہلے سے ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
بھارت کے اس اقدام کے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہونگے۔ بھارتی حکومت کا اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے، بھارت ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کو نوٹس لینا چاہیے بھارت عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ نریندر مودی نے پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خدشات کا اظہار کیا تھا، ہم نے انہیں سمجھایا کہ 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا تو تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) منظور کیا تھا کہ پاکستان کی زمین کو کسی دہشت گرد گروہ کی جانب سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ دو طرفہ طور پر یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا اور برصغیر میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ایک ارب افراد متاثر ہورہے ہیں اس لیے امریکی صدر سے ملاقات میں درخواست کی کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کریں اور بھارت کا رد عمل آپ کے سامنے تھا۔ عمران خان نے کہا کہ بشکیک میں اندازہ ہوگیا تھا کہ بھارت کو ہم سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں اور اس حوالے سے مجھے جو شبہ تھا وہ کل سامنے آگیا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے یہ فیصلہ اچانک نہیں کیا بلکہ یہ ان کے انتخابات کا منشور تھا اور یہ ان کا بنیادی نظریہ ہے جو آر ایس ایس کے نظریے پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے، یہ صرف ہندوؤں کا ملک ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب تھا اور جب انگریز جارہے تھے تو ان کا ارادہ تھا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں دبا کر رکھیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو ہندو ۔ مسلم اتحاد کے سفیر سمجھے جاتے تھے، کیا وجہ تھی کہ انہوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت میں جو لوگ دو قومی نظریے کو نہیں مانتے تھے آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ٹھیک تھا، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں تمام اقلیتوں مسلمانوں اور مسیحی برادری کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی معروف تقریر میں کہا تھا کہ ’سب اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں’ اور ہم غلطی سے کہتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے۔
انہوں نے کہا کہ دراصل یہ دو نظریے تھے، ایک تو نسل پرست نظریہ تھا کہ مسلمانوں کو برابری کا درجہ نہیں دیتے، دوسرا نظریہ قائداعظم کا تھا کہ یہاں سب برابر ہیں، وہ نظریہ ریاست مدینہ سے لیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نبیﷺ نے آخری خطبے میں کہا تھا کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں، انہوں نے نسل پرستی کو مسترد کیا تھا اور پاکستان جس نظریے پر بنا اس میں تعصب نہیں تھا۔
عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی تقریر اور تحریک پاکستان کی تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان میں انہیں بنیادی حقوق نہیں ملیں گے تو وہ مسلم کارڈ نہیں کھیل رہے تھے، جس نظریے سے ان کا مقابلہ ہے وہ اسے سمجھ گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ آج جو بھارت میں ہورہا ہے ہم اس کے مخالف ہیں، ہمارے ملک میں جب اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہو تو ہم اپنے دین اور نظریے کے خلاف جاتے ہیں، لیکن موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت جب گوشت کھانے والوں کو لٹکا دیتی ہے اور لوگ انہیں مار دیتے ہیں، جو انہوں نے کل کشمیر میں کیا، پچھلے 5 برس جو تشدد کیا اور جو مسیحی برادری کے ساتھ کیا یہ بھارت کا نظریہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارا مقابلہ نسل پرست نظریے سے ہیں، کشمیر میں انہوں نے اپنے نظریے کے مطابق کیا لیکن وہ اپنے ملک کے آئین، اپنی سپریم کورٹ، مقبوضہ کشمیر کے فیصلے کے خلاف گئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور شملا معاہدے کے خلاف گئے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرکے مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے خلاف ہے، اسے جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اپنے نظریے کے لیے اپنے آئین، قوانین اور تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا قانون منظور کردیا تو وہ کشمیری جو 5 سال سے جاری تشدد کے باعث جدوجہد کررہے ہیں کیا وہ قانون کی وجہ سے فیصلہ کریں گے کہ ہماری جدو جہد ختم ہوگئی، ہم غلام بننے کے لیے تیار ہیں یہ تحریک تو مزید شدت پکڑے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ہم سب کو سمجھنا ہے کہ اب یہ مسئلہ مزید سنجیدہ صورتحال اختیار کر گیا ہے، بھارت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مزید دبانا ہے، وہ انہیں اپنے برابر نہیں سمجھتے کیونکہ اگر وہ کشمیریوں کو اپنے برابر سمجھتے تو وہ جمہوری طور پر کوئی کوشش کرتے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کو طاقت کے زور پر کچلنےکی کوشش کرے گی اور جب وہ ایسا کرے گی تو ردعمل آئے گا تو میں آج پیش گوئی کرتا ہوں کہ پھر پلوامہ کی طرز کا واقعہ ہوگا اور بھارت وہی کہے گا کہ پاکستان سے دہشت گرد آئی جبکہ اس میں ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت کو ہمیشہ کہا دو ایٹمی ملکوں کو مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے لیکن مجھے ہندوستانی حکومت میں تکبر نظر آتا ہے۔ بھارتی حکومت جو کر رہی ہے کشمیر سے ردعمل آئے گا، جب ردعمل آئے گا تو بھارت ہمیشہ کی طرح پاکستان پر الزام لگائے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کی طرح ایک اور واقعہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اب بڑا سیریس ایشو بن گیا ہے۔ بھارت نے اپنے آئین کی بھی خلاف ورزی کی۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک اب مزید زور پکڑے گی۔ بھارتی حکومت مکمل طور پر آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی پر چل رہی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت حملہ کرے اور ہم جواب نہ دیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ مودی سرکار کی حرکتیں نازیوں جیسی ہیں، ایٹمی طاقتیں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف سمیت ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے۔ اگر دنیا نے کچھ نہ کیا تو پھر ہم ذمہ دار نہیں ہونگے۔
وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ہمیں اس اجلاس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اس اجلاس کو صرف پاکستانی قوم نہیں دیکھ رہی بلکہ کشمیری اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سیشن کی اہمیت صرف کشمیریوں، پاکستان کے لیے نہیں بلکہ بھارت نے جو فیصلہ کیا اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے، یہ بہت اہم ہے کہ تحمل سے سنیں کہ آج یہاں سے بہت اہم پیغام جائے گا۔
وی این ایس، اسلام آباد