اسلام آباد۔4جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ کشمیر پر عالمی برادری کو خاموشی توڑنا ہوگی، انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارتی ظلم و ستم پر آواز اٹھانی چاہئے، ڈاکٹر آسیہ اندرابی اس وقت تہاڑ جیل میں قید ہیں، ان کی صحت خراب ہے، ڈاکٹر کی سہولت فراہم نہیں کی گئی، کشمیری خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کی مثال نہیں ملتی، سید علی گیلانی، شبیر شاہ سمیت دیگر کشمیری رہنما جیلوں میں بند ہیں، بھارت جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 76 کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو کشمیری رہنما ڈاکٹر آسیہ اندرابی کے اہل خانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ مودی سرکار مسلسل انسانی حقوق اور عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور ان حقوق کی پامالی کے دائرے کو وسعت دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے جینوا کنونشن کی شق 49 قابض حکومت کو، قطع نظر اس کے کہ اس کے عزائم کیا ہیں، حراست میں لئے گئے کسی فرد یا گروہ کو مقبوضہ علاقے سے قابض قوت کے زیر انتظام علاقے میں منتقلی کی اجازت نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ جینوا کنونشن کی شق 49کی بار بار خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے ڈاکٹر عاشق حسین فکتو (طویل ترین عرصے تک قید کی مشقت اٹھانے والے سیاسی قیدی) آسیہ اندرابی اور دیگر کشمیری آسیروں کو بھارت کی مختلف جیلوں خصوصاً بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید کر کے اس قانون کی کئی بار دھجیاں اڑائیں ہیں۔ ان کے مطابق سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، اشرف سحرانی، ڈاکٹر فیاض، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور مسرت عالم بھٹ بھی ان میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان قیدیوں کی حراست روم سٹیچیوٹ آف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی دفعہ 82(2B، VIII) اور چوتھے جینوا کنونشن کے آرٹیکل 143کے تحت ایک جنگی جرم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت چوتھے جینوا کنونشن کے آرٹیکل 76 کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہو رہا ہے جو انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے نمائندوں کو قیدیوں سے ملاقات کا حق دیتا ہے۔ ان کے مطابق یہی آرٹیکل 76 حکم دیتا ہے کہ خواتین قیدیوں کو الگ جگہوں پر قید کیا جائے اور خواتین عملہ براہ راست ان کی دیکھ بھال کرے۔ وزیرانسانی حقوق نے نشاندہی کی کہ بھارتی سپریم کورٹ نے نومبر 2012ءکے اپنے فیصلے میں ”مرنے تک” کو عمر قید کی تعریف قرار دیا ہے جسے بھارت سرکار آسیہ اندرابی کو تاعمر زندان میں ڈالنے کیلئے ایک نظیر کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ 14سے 18جنوری کے درمیان متوقع ہے اور یہ عدالتی قتل سے کسی طور کم نہیں۔ وزیرانسانی حقوق نے اقوام متحدہ، اس کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر اور انسانی حقوق کونسل، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ انٹرنیشنل پارلیمنٹری وویمن کاکس سمیت خواتین کی تنظیموں سے معاملے پر اقدامات اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں خواتین کے خلاف ظلم و ستم پر آواز بلند کرنی چاہئے، ڈاکٹر آسیہ اندرابی 2016ءسے جیل میں ہیں، مودی کی فاشسٹ حکومت نے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں مقبوضہ وادی سے تہاڑ جیل منتقل کیا جہاں ان کی صحت خراب ہے اور انہیں ڈاکٹر کی سہولت بھی فراہم نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت پر دباﺅ ڈالے۔ دنیا کو انسانی حقوق کے مسائل پر بات کرنی چاہئے۔ مقبوضہ علاقے میں بھارت مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہا ہے۔ پریس کانفرنس میں زیر حراست کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کے اہلخانہ کے بیانات بھی براہ راست سنوائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سرکار کے ہاتھوں انسانی حقوق اور عالمی انسانی قوانین خصوصاً تحفظ کی ذمہ داری کے اصول (R2P) جس کی 2005ءکی عالمی سمٹ کے دوران اقوام متحدہ کی تمام رکن ریاستوں نے توثیق کی، کی پہیم خلاف ورزیوں پربین الاقوامی برادری کی خاموشی تشویشناک ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ لازم ہے کہ بین الاقوامی برادری معاملے کی سنگینی اور عجلت کا نوٹس لے قبل اس کے کہ عدالت اپنا فیصلہ جاری کرے۔ڈاکٹر آسیہ اندرابی کے بیٹے نے کہا کہ انہیں مہینے میں ایک مرتبہ اپنی ماں سے بات کرنے اور ملنے کی اجازت دی جاتی ہے، جب والدہ سے ملاقات یا بات چیت کے لئے جاتا ہوں تو ان کے ساتھ پولیس اہلکار کھڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ سمیت بہت سے حریت رہنما جیلوں میں بند ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آسیہ اندرابی نے دختران ملت تنظیم کی بنیاد رکھی جو کشمیری خواتین کےلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ آسیہ اندرابی کے بھانجے نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا۔ آسیہ اندرابی 1960ءمیں پیدا ہوئیں اور ایک ایلیٹ کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں اور بھارت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک خواب تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آسیہ اندرابی نے 1980ءمیں دختران ملت تنظیم کی بنیاد رکھی، اس جماعت نے مقبوضہ کشمیر کے اندر سیاسی اصلاحات لائیں۔ خواتین کو سیاسی طور پر میچور کرنے کے لئے آسیہ اندرابی کی آواز بہت اہم ثابت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ آسیہ اندرابی نے 1992ءسے اب تک کئی برس جیل میں گذارے۔ 2016ءمیں انہیں سرینگر جیل میں قید کیا گیا، 2018ءمیں جولائی میں انہیں اغواءکر کے ناہید نسرین اور فہمیدہ صوفی کے ہمراہ تہار جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ بعدازاں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ ہمیں کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرانی چاہئے، وومن پیس اینڈ سیکورٹی کے بارے میں یو این جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد موجود ہے اس میں خاص طور پر خواتین اور متنازعہ علاقوں کا ذکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسیہ اندرابی کی واحد تنظیم ہے جو خواتین کو حق خودارادیت کے پلیٹ فارم پر لائی، اس تنظیم کو اگر ختم کیا گیا تو یہ تمام خواتین پر حملہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کے 18 خصوصی نمائندوں کو خط لکھے، برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کو لازم قرار دیا ہے، بھارت کے خلاف انہیں ایکشن لینا چاہئے۔ یورپی یونین کی فارن پالیسی میں بھی یہی رول ہے، مقبوضہ علاقے میں جہاں خاص طور پر عالمی قوانین ہیں، وہاں ایکشن ہونا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ آسیہ اندرابی کے بارے میں 14 یا 18 جنوری کو فیصلہ ہونا ہے، ہمیں بھارت پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے، ہمیں نہ صرف خود آواز اٹھانی چاہئے بلکہ عالمی سطح پر اور سرکاری سطح پر اس ایشو کو آگے لانا چاہئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کو خط لکھا ہے، وومن کاکسز سے بات کرنی چاہئے، اس میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے، صرف فون یا خط لکھ لینا کافی نہیں ہے، اس سے آگے بڑھنا ہوگا، ہم زوم کانفرنس کے ذریعے بات کر سکتے ہیں۔