وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک کے زرعی شعبے کی بحالی کے حوالے سے اصلاحات پر جائزہ اجلاس

92

اسلام آباد،08 فروری (اےپی پی): وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک کے زرعی شعبے کی بحالی کے حوالے سے اصلاحات پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ موجود استعداد سے کم ہے۔ اسی طرح گندم چاول، مکئی، کپاس اور گنے کی پیداوار بھی خطے کے مقابلے میں کم ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ موثر حکمت عملی اورکسانوں کو مالی و تکنیکی معاونت کی فراہمی سے زرعی پیداوار کے تناسب کو سال 2031تک 74ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سال 2020 میں ملکی مجموعی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ49ارب ڈالر رہا جس میں اکتیس ارب ڈالر لائیو سٹاک، ایک ارب فشریز جبکہ سترہ ارب ڈالر زرعی فصلوں کی مد میں ریکارڈ کیا گیا۔ سال2000میں یہ حصہ بیس ارب ڈالر تھا جس میں دس ارب ڈالر لائیوسٹاک جبکہ فصلوں کا حصہ دس ارب ڈالر تھا۔ اس اعتبار سے گذشتہ بیس سالوں میں زرعی فصلوں کی پیداوار میں صلاحیت کے مطابق استعداد کو برؤے کار نہیں لایا جا سکا۔  مختلف اجناس کے حوالے سے بتایا گیا کہ گندم کی فصل میں ملکی اوسطاً  پیداراو 29من فی ایکٹر، چاول 50من، مکئی57من، کاٹن18 اور گنے کی پیداوار 656من رہی ہے جبکہ بھارت میں یہ پیداوار بالترتیب گندم 51من، چاول64، مکئی42، کاٹن 18جبکہ گنے کی پیداوار اوسطاً 796من رہی ہے۔

ملک میں پراگریسیو کسان کی اوسطاً پیداوار گندم 45من فی ایکڑ، چاول80من، مکئی، 80من، کاٹن 35 من جبکہ گنا میں اوسطاً پیداوار 950من ہے۔

 اجلاس کو بتایا گیا کہ اس وقت کسان کو فی ایکڑ140ڈالر ایگری کریڈٹ دستیاب ہے جبکہ بھارت میں یہ 369ڈالر، امریکہ میں 192جبکہ چین میں 628ڈالر میسر آ رہا ہے۔ اسی طرح سبسڈی کی مد میں بھی ہمارے کسان کو دیگر ممالک کے مقابلے میں کم معاونت میسر ہے جو کہ اوسطاً 27ڈالر فی ایکڑ ہے۔ اس موقع پر  وزیرِاعظم کو پیش کردہ ایگری کلچر ٹرانسفارمیشن پلان کے پہلے مرحلے میں سیڈ (بیج) سیکٹر میں اصلاحات، ڈیجیٹل سبسڈی کا نظام متعارف کرانے، مشینری کے استعمال کے فروغ، پانی کا موثر استعمال، کاشتکاروں کو کریڈٹ کی فراہمی، ایکسٹینشن سروسز کی تنظیم نو، سٹوریج کی سہولیات اور تحقیقاتی شعبوں میں اصلاحاتی پروگرام متعارف کرانے سمیت آٹھ بڑے اقدامات کی نشاندہی کی گئی۔  پلان کے تحت کپاس، زیتون، مال مویشیوں میں جنیٹک امپروومنٹ اور فشریز (ماہی گیری) کو ترجیحاتی شعبے کے طور پر لیا جائے گا۔

 اجلاس کو بتایا گیا کہ موجود اعداد وشمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 67فیصد کسانوں (تقریبا سینتیس لاکھ) کا ڈیٹا موجود ہے۔ جن میں سے اٹھارہ لاکھ کسان کسی نہ کسی صورت میں ڈیجیٹل نظام سے سروسز استعمال کر چکے ہیں۔ نو لاکھ کسانوں کو سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں چار لاکھ کسان ڈٖیجیٹل پلیٹ فارم پر ریجسٹرڈ ہیں۔  زرعی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے مشینری کے استعمال  کے فروغ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ جس میں گورنمنٹ کی جانب سے درکار معاونت کے حوالے سے مجوزہ اعدادو شمار پیش کیے گئے

  وزیرِ اعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا، زرعی شعبے کا فروغ اور کسان کو اس کا جائز حق دلواناموجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملکی معیشت میں زراعت کی اہمیت کے باوجود ماضی میں اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ٹیکنالوجی کے فروغ کو نظر انداز کیاگیا جس کا خمیازہ ہمارے کسان اور ملکی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر فوڈ سیکیورٹی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے، خوراک کی درآمدات پر آنے والے اخراجات میں کمی لانے اور شعبے میں موجود پوٹینشل کو برؤے کار لانے کے لئے زرعی شعبے کی بحالی اور ترقی ایک قومی ترجیح ہے۔

اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر برائے اقتصادی امور مخدوم خسرو بختیار، وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام، مشیر وزیر اعظم ڈاکٹر عشرت حسین، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، وزیر اعلی خیبر پختون خواہ محمود خان، معاونین خصوصی ڈاکٹر معید یوسف، ڈاکٹر وقار مسعود، گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر، پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے  صوبائی وزراء  مخدوم ہاشم جواں بخت، محمد سبطین خان، حسین جہانیاں گردیزی، سید صمصام حسین بخاری، سردار حسنین بہادر دریشک، تیمور سلیم جھگڑا، سید محمد اشتیاق، نجی شعبے کے نمائندگان اور متعلقہ محکموں کے سینئر افسران شریک تھے۔