اسلام آباد،13ستمبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ تین برسوں میں حکومتی اقدامات کی بدولت پاکستان کی اندرونی اور بیرونی محاذ پر کلیدی کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نئی اور مثبت سمت کی جانب گامزن ہے، کورونا کی مہلک وبا کے باوجود حکومت کی موثر پالیسیوں اور حکمت عملی کے باعث پاکستان کی معیشت مستحکم رہی، تر سیلات ، برآمدات ، اسٹاک ایکس چینج میں نمایاں بہتری سمیت مثبت اقتصادی اشاریے حکومتی معاشی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، احساس پروگرام کے ذریعے کمزور طبقوں کے لئے اقدامات، تعمیراتی شعبہ کےلئے مراعات، کم آمدنی والے افراد کےلئے مکان اور چھت کی فراہمی ، کامیاب جوان پروگرام اور یکساں قومی نصاب کا نفاذ قابل تحسین اقدامات ہیں ، بھارت کے انتہاپسند ہندوتوا فاشسٹ نظریہ سے خطے کے امن کو خطرہ لاحق ہے۔ بھارت کشمیر میں ظلم کا بازار بند کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ نبھائے، افغانستان میں امن سارے ہمسایہ ممالک کے لئے اہم ہے، دنیا کو وہ بات لاکھوں انسانی جانیں اور اربوں ڈالر خرچ کرکے سمجھ آئی جو وزیراعظم عمران خان 20 سال سے کہہ رہے تھے، جوہری قوت، دہشتگردی کے خلاف جنگ، پناہ گزینوں کے ساتھ ہمدردی اور تنظیم کا جذبہ پاکستانیوں کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سمیت انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں’ جعلی خبریں اور غیبت سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تیسرے پارلیمانی سال کی تکمیل اور چوتھے سال کے آغاز پر تمام معزز اراکین پارلیمان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا کی کہ پاکستان میں جمہوری اقدار اور ایک دوسرے کی برداشت کی روایات نے فروغ پایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نئی اور مثبت سمت کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں ہمارے ملک اور قوم میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں تربیت کے جن مراحل سے ہم گزرے اور اس کے نتیجے میں جو طاقتیں اور صلاحیتیں اپنے اندر پیدا کیں ان کی بدولت ہم انشا اللہ ایک چمکتے دمکتے اور ابھرتے ہوئے پاکستان کی منزل کو پا لیں گے۔
صدر مملکت نے معیشت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب کورونا کے منفی اثرات کے سبب دنیا کی تمام معیشتیں سکڑنے لگیں تو اس وقت اللہ تعالی کے فضل و کرم اور حکومت کی اچھی پالیسیوں کی بدولت پاکستان کی معاشی کارکردگی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر رہی اور پاکستانی معیشت کی شرحِ نمو 3.94 فیصد رہی۔
صدر مملکت نے موجودہ دور حکومت کی چیدہ چیدہ کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال21-2020 کے دوران پاکستان کی برآمدات گزشتہ سال 23.7 ارب کے مقابلے میں 25.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ترسیلات زر 29.4 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے جو کہ پچھلے سال کی نسبت تقریباً6 ارب ڈالر زیادہ ہیں اور اس سال کے شروع کے 2 مہینوں میں مزید دس فیصد کا اضافہ ہوا ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور ایشیا کی بہترین اور دنیا کی چوتھی بہترین کارکردگی کا اعزاز حاصل کیا اور مئی 2021 ء میں ایک سیشن میں ریکارڈ توڑ 2.21 ارب حصص کی خریدو فروخت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کی بدولت دو سال قبل عالمی بینک کے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن میں28 درجے کی بہتری آئی تھی اور اب اوورسیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے حالیہ سروے کے مطابق سمندر پار سرمایہ کاروں کے پاکستانی معیشت اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد میں تقریبا 60 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ایف بی آر نے سال2021 ء میں ٹیکس وصولیوں کی مد میں4732ارب روپے اکھٹے کیے جو کہ پچھلے سال کی نسبت تقریبا 18 فیصد زیادہ ہیں ۔ اسی طرح موجودہ مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں ہدف سے 160 ارب روپے زائد کی وصولیاں ہوئیں ہیں ۔ عوام کا اتنی بڑی تعداد میں ٹیکس جمع کرانا اور ترسیلات ِ زر بھیجنا حکومتی پالیسیوں پر مکمل اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے فیٹف کے حوالے سے حکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے میدان میں بڑی تندہی سے کام کر کے سارے اعتراضات کے حل کیلئے قوانین اور طریقہ کار بنالیا ہے اور یہ قوانین لاگو بھی کر دیئے گئے ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ عوام اور بالخصوص کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو حکومت نے ایک بڑا تعمیراتی پیکج دیا، مکان اور چھت کی فراہمی کیلئے “نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام” کا آغاز کیا گیا۔ اس کیلئے حکومت نے تعمیراتی شعبے کو 36 ارب روپے کی سبسڈی دینے کے علاوہ مختلف ٹیکسوں کی مد میں چھوٹ بھی دی۔ بینکوں کی مدد سے عوام کو اپنے مکان کی تعمیر کیلئے آسان شرائط پر قرض کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات اٹھائے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کے بینکنگ سیکٹر کا ہائوسنگ اور تعمیرات کے فنانس کا پورٹ فولیو260 ارب روپے کی حد عبور کر چکا ہے۔ حکومت کے اعلان کردہ تعمیراتی پیکج میں اب تک447 ارب مالیت کے 1252 منصوبوں کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔ حکومت کے ان اقدامات کی بدولت نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے بلکہ 70 کے قریب ڈائون سٹریم انڈسٹریز جیسا کہ سٹیل، سیمنٹ ، پینٹ اور الیکٹرانکس انڈسٹری میں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں تاریخی ترقی کا سہرا وزیرِ اعظم کے سر جاتا ہے کہ جنہوں نے عوام کے احساس پر مبنی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں معاشی کامیابی سے بھی نوازا ۔ زراعت کے شعبے میں 2.77فیصد کی ترقی ہوئی اور اس میں مزید محنت کی ضرورت ہے۔ حکومت کی آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ کی وجہ سے آئی ٹی برآمدات2.12 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت ان برآمدات میں 47کا اضافہ ہوا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کو تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے بھی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں ان میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت نوجوانوں کی آن لائن تربیت کاپروگرام ” ڈیجی سکلز” قابلِ ذکر ہے۔ یہ امر لائق تحسین ہے کہ اب تک 17 لاکھ نوجوانوں کو اس پلیٹ فارم کے ذریعے تربیت دی جاچکی ہے جس میں اکثریت 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے ۔ پاکستان کے فری لانسرز اب تک 20 کروڑ ڈالر سے زائد زر مبادلہ کما چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ دنیا اس وقت چوتھے صنعتی انقلاب سے گزر رہی ہے اور یہ انقلاب صرف مادی ترقی کا انقلاب نہیں بلکہ ایک فکری اور ذہنی انقلاب ہے۔ ماضی میں اقوام نے کارخانوں اور انڈسٹری کی مدد سے ترقی کی۔ اس کے مقابلے میں جدید ٹیکنالوجیز ، جیسا کہ مصنوعی ذہانت، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ، نیٹ ورکنگ، ڈیٹا اینالیسز، کلائونڈ کمپیوٹنگ، انٹرنیٹ آف تھینگز اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیز رفتار ترقی ممکن ہے۔
صدر مملکت نے سائبر سیکورٹی کے حوالے سے کہا کہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ذہانت کے اعتبار سے پاکستانی قوم اور پاکستانی نوجوان دنیا کی کسی قوم سے کم نہیں۔ مجھے اپنے سائنسدانوں اور آئی ٹی ماہرین پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعداد کو بروئے کار لا کر عصرِ حاضر کے سائبر ڈیفنس اور سیکورٹی چیلنجز پر احسن طریقے سے قابو پالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا انسانی وسائل کی ترقی کو اولین ترجیح دینا اور انسانی ہمدردی پر مبنی پالیسیوں کو اپنانا دوسری بڑی تبدیلی اور کامیابی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں انسانی ترقی کے شعبوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ صدر مملکت نے کہا کہ کرپشن کے ناسور اور ماضی کی غلط ترجیحات کی وجہ سے ہم نہ صرف ترقی سے محروم رہے بلکہ انسانی و سماجی ترقی کے تمام اشاریوں میں بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے۔ ٹیلنٹ کی قدر نہ ہونے اور میرٹ کو فوقیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان کو گورننس کا نقصان ہوا اور برین ڈرین کا سامنا بھی کرنا پڑا۔انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کا تصور اب صرف سرحدوں اور فوجی معاملات تک محدود نہیں رہا بلکہ ماحول، خوراک، تعلیم، چھت اور صحت کے شعبے انسانی سلامتی کے جامع تصور کے تحت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ ایک نئے اور عظیم الشان پاکستان کا قیام ایک تعلیم یافتہ، صحت مند اور ذمہ دار قوم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہنرمند اور ذہین افراد اقوام کی ترقی کیلئے سب سے بڑا ستون ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ حکومت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کی فلاح و بہبود کیلئے احساس پروگرام جیسے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے مثالی منصوبوں کا قیام عمل میں لائی’ ذہنی و جسمانی کمزوری کے خاتمے کیلئے احساس نشوونما پھر ، وسیلہ تعلیم، احساس کفالت، احساس سکالرشپ، احساس ایمرجنسی کیش، احساس آمدن، احساس لنگر خانے اور احساس کوئی بھوکا نہ سوئے اور پناہ گاہوں جیسے نئے پروگراموں کی مدد سے مستحق اور غریب افراد کے معاشی اور سماجی تحفظ پر کام کر رہی ہے۔ معاشرے کے کمزور ترین طبقات کے درد کو محسوس کرتے ہوئے حکومت نے اس سال تقریبا 208 ارب روپے مختص کیے ہیں ۔ ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو کیش امداد دی جائے گی جس سے ملک کی 30فیصد آبادی مستفید ہو سکے گی۔ ان تمام منصوبوں میں نہ صرف خواتین بلکہ خصوصی افراد کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا گیا اور ان کیلئے احسن اقدامات کیے گئے ۔ “احساس کفالت پروگرام ” کے تحت اس مالی سال میں 70 لاکھ خواتین کو ماہانہ2000 روپے دیئے جائیں گے اور 20 لاکھ خصوصی افراد کو ماہانہ2 ہزار روپے دینے کی منظوری بھی دے دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے خواتین اور خصوصی افراد کی مالی شمولیت یقینی بنانے کیلئے خصوصی قرض کی سکیم متعارف کرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں قرض کی سکیمیں تو موجود ہیں مگر مناسب آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے قرض لینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ انہوں نے “کامیاب جوان پروگرام ” کو ایک اور بہترین کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے اس سال تقریبا100 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے اس لئے کہ ملک کے نوجوانوں کو آسان شرائط پر اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے قرض دیئے جائیں گے۔ اب تک 15 ارب روپے سے زائد کی رقم سے تقریبا14 ہزار کاروبار شروع کیے جا چکے ہیں۔ حکومت نے نوجوانوں کی استعداد کار میں اضافے اور انہیں باہنر بنانے کیلئے “ہنر مند پاکستان پروگرام” کیلئے10 ارب روپے کی رقم رکھی ہے اور اب ملک بھر کے720 اداروں میں ایک لاکھ 70 ہزار نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر نوکریوں کے قابل بنایا جارہا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ حکومت عوام کے مفت علاج کیلئے بھی سرگرم عمل ہے۔ “صحت سہولت پروگرام”اور صحت کارڈ کے تحت پاکستان یونیورسل ہیلتھ کوریج کی منزل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اب تک خیبرپختونخوا’ پنجاب’ بلوچستان ‘ اسلام آباد’ آزاد کشمیر ‘ سابق فاٹا اور گلگت بلتستان سے ایک کروڑ 80 لاکھ خاندان اس پروگرام سے مستفید ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد پوری آبادی کو صحت سہولت پروگرام میں شامل کر لیا جائے گا ۔ حکومت ملک میں ٹیلی میڈیسن کے فروغ کیلئے بھی اقدامات کررہی ہے اور صوبوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ ٹیلی میڈیسن کے تصور کو اپنانے پر توجہ دیں۔ اس سے سستے علاج کی فراہمی اور ہسپتالوں پر بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے وسائل پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور ہمیں تعلیم ، صحت ، خوراک ، ٹرانسپورٹ ، پانی نکاسی آب اور توانائی جیسی ضروریاتِ زندگی عوام تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں کی پیدائش میں وقفہ لانے ، کنبہ چھوٹا کرنے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق ماں کا بچے کو اپنا دودھ پلانے کی روایت عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی بہتر پرورش ہو سکے ، ماں اور بچے کی صحت پر مثبت اثر پڑے اور بچہ غذائی قلت اور ذہنی و جسمانی کمزوری کا شکار نہ ہو۔ اس سلسلے میں میڈیا ، علماء کرام اور معاشرے کے دیگر طبقات سے کردار بڑھانے اور حکومت سے فنڈنگ میں اضافہ کی درخواست ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور حکومت نے پاکستان میں “یکساں تعلیمی نصاب” کے نفاذ کے لئے اقدامات کئے ہیں ۔ اس بہترین کام کا مقصد ملک بھر کے بچوں کو مساوی معیارِ تعلیم کو یقینی بنانا ہے اور ایک متحد قوم کی تشکیل کرنی ہے۔ “احساس اسکالر شپ پروگرام ” کے تحت تقریبا 50 ہزار طلبا کیلئے اسکالر شپ کا آغاز کیا گیا اور گزشتہ دو سال میں ایک لاکھ 42 ہزار طلبا کو احساس اسکالر شپ دی گئی ۔ حال ہی میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے خصوصی افراد کیلئے اپنی پالیسی میں خصوصی طلبا کو ملک بھرکے جامعات میں ٹیوشن فیس اور ہوسٹل فیس کی مد میں مکمل چھوٹ دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو تعلیم کی فراہمی اور انہیں ہنر مند بنانے کا مقصد پاکستان کو سماجی و معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ ایک ان پڑھ انسان تو صرف جسمانی مزدوری ہی کر سکتا ہے مگر تعلیم یافتہ نوجوان مختلف اور جدید شعبہ جات میں کام کر کے اپنی اور اپنے ملک کی آمدن میں اضافہ کر سکتا ہے۔
ملکت ین ایس، اسلام آباد صدر مملکت نے کہا کہ خصوصی افراد اور خواتین کے حقوق کے تحفظ پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین بنائے گے ہیں۔ ان میں ڈس ایبلٹی ایکٹ2020ء , زینب الرٹ بل 2020ء اور اینٹی ریپ آرڈیننس 2020ء جیسے قوانین شامل ہیں۔حالیہ دنوں میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات سامنے آئے، بحیثیت ریاست ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنا ہمارا قومی فرض ہے۔ حکومت نے جنسی زیادتی کے کیسز سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر بھی خواتین کے تحفظ کیلئے کام کیے ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ ان اقدامات کے علاوہ معاشرے کے تمام طبقات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین کا احترام کریں اور پبلک مقامات پر خواتین کا تحفظ یقینی بنائیں تاکہ وہ قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے کچھ حصوں میں ابھی تک خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت نے خواتین کے ملکیتی حقوق کے نفاذ کا ایکٹ 2020 ء پاس کیا۔ خواتین کو ان کے وراثتی حقوق دینے کیلئے معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں علماء کرام اور میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں میں خواتین کے وراثتی حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کریں۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کو عالمی حدت کی وجہ سے سیلاب و دیگر قدرتی آفات اور پانی کی کمی جیسے خطرات لاحق ہیں ۔ ان خطرات سے نمٹنے کیلئے عمران خان نے بروقت اور دوراندیش فیصلے کیے ۔ اس کا آغاز خیبر پختونخوا میں “بلین ٹری سونامی” سے کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے نہیں شروع کیا گیا بلکہ اس کا تعلق پاکستان کے مستقبل اور آنے والی نسلوں سے تھا۔ اب حکومت 10 ارب سونامی ٹری اور کلین اور گرین پاکستان جیسے پروگرام پر کام کررہی ہے جس کی افادیت کو عالمی سطح پر بہت سراہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک اہم آلہ ہے جس سے نہ صرف انتخابات میں شفافیت آئے گی اور نتائج کی بروقت ترسیل ممکن ہوسکے گی بلکہ ووٹر کی رازداری کا بھی خیال رکھا جا سکے گا۔ اس سسٹم کو “ہیک ” نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ نظام انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہے۔ اس میں بیلٹ پیپر بھی ہے۔ اس عمل کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے اور کھلے دل سے اس کی نوک پلک دیکھی جائے اور ٹھیک کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور انہیں سیاسی عمل میں شریک کرنے کیلئے آئی ووٹنگ متعارف کرانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تمام سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں مکمل تعاون کریں گی تاکہ سمندر پار پاکستانی جوہمارا اثاثہ ہیں اور پاکستان کو خطیر زرِمبادلہ بھیجتے ہیں، اپنے سیاسی حقوق سے محروم نہ رہیں۔
صدر مملکت عارف علوی نے خارجہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کئی دہائیوں سے نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے خود کو کشمیر کا سفیر کہا اور بڑے موثر انداز میں بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے ہر فورم پر بے نقاب کیا۔ پاکستان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے روابط قائم رکھے اور وزیراعظم عمران خان نے منتخب ہوتے ہی بھارت کے وزیر اعظم کو دعوت دی کہ اگر آپ امن کی جانب ایک قدم بڑھائیں گے تو پاکستان دو قدم آگے آئے گا لیکن بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کے ہر مثبت قدم کا منفی جواب دیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ فروری 2019 ء میں بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا اور بھارت کا طیارہ مار گرایا ۔ پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو اس پارلیمان کی مشاورت سے جذبہ خیر سگالی کے تحت واپس کردیا ۔ انہوں نے بھارت پر واضح کیا کہ وہ کشمیر میں ظلم کا بازار بند کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت دے۔ انہوں نے کشمیری عوام کو پیغام دیا کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا ۔ انہوں نے کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرنے پر چین ، ترکی، ایران اور آذربائیجان سمیت دیگر دوست ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا۔
صدر مملکت نے بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور آر ایس ایس کے شدت پسندانہ اور نسلی امتیاز پر مبنی ہندوتوا کے فاشسٹ نظریے کو علاقائی سالمیت کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو پہچاننا چاہئے کہ بھارت کئی سالوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث اور تخریب کاروں کا سہولت کار ہے۔ بھارت میں جوہری مواد کی چوری اور مارکیٹ میں خرید و فروخت کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ بھارتی غیر ذمہ داری کا ثبوت ہیں جس کی وجہ سے عالمی امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے سنگین واقعات کو عالمی برادری اور میڈیا کی جانب سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اسلامی دنیا کو دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ اسلاموفوبیا اور اسلام دشمنی کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کا ایک اہم کردار ہے اور انہوں نے عالمی برادری بالخصوص مغربی ممالک کو یہ بات باور کرائی ہے کہ وہ اسلام دشمنی ، تعصب اور تنگ نظری پر مبنی پالیسیوں کو ترک کرکے بین الاقوامی سطح پر امن اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے برادر ملک افغانستان میں پچھلے دنوں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا تقریباً20 سال سے یہ مؤقف رہا ہے کہ جنگ کی بجائے مذاکرات کی راہ اپنا کر مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ طویل جنگ اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا۔ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں قیام امن کا خواہشمند ہے اور ہم نے اس کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت افغانستان کی عوام کو متحد کرے اور فتح مکہ کے موقع پر حضورۖ کی تعلیمات کے مطابق عام معافی کی پالیسی اپنائے اور خاص طور پر افغانستان کی سرزمین سے کسی پڑوسی ملک کو کوئی خطرہ نہ ہو ۔ اس سلسلے میں طالبان رہنمائوں کے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ اب دنیا کو چاہئے کہ وہ اس وقت افغان عوام کو بے یارو مدد گار نہ چھوڑے اور ان کی مدد کرے تاکہ انسانی بحران پیدا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی تعمیر اور بحالی میں عالمی برادری اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ پاکستان اس وقت بھی افغانستان میں طبی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کر رہا ہے اور پاکستان کی قومی ایئر لائن افغانستان سے عالمی برادری کے افراد کے انخلا میں پیش پیش رہی ہے اور اس پر پاکستان کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ افغانستان کے بارے میں وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کا مشورہ درست ثابت ہوا، اس لئے دنیا کو پاکستان پر بلاجواز تنقید کی بجائے عمران خان کے سیاسی تدبر کو سراہنا چاہئے اوردنیا کے دیگر معاملات پر ان کی تقلید کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی معاشی ترقی کیلئے جیو اکنامکس اور علاقائی روابط کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم اور اقتصادی تعاون تنظیم کے ساتھ ساتھ دیگر فورمز پر بھی علاقائی روابط کے فروغ کی کوششیں کی ہیں۔ پاکستان اس امر کا خواہاں ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے خطے کی معیشتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جائے اور علاقائی اور بین الاقو امی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن سارے پڑوسی ممالک کیلئے بہت خوش آئند ہو گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان اپنے دیرینہ دوست چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ چین نے پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن کچھ ملک دشمن عناصر بالخصوص ہندوستان شروع سے ہی پاک۔چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا اور پاک۔چین دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی حکومت اور قوم کی جانب سے ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران اور دیگر دوست ممالک کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ وہ ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پانچ عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مستقبل انتہائی روشن دیکھ رہا ہوں، پاکستان نے بھارت کے نام نہاد پرامن ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایک انتہائی مختصر عرصے میں دفاعی ایٹمی صلاحیت حاصل کی، یہ صلاحیت ذہنی اور فکری استعداد کار کے باعث حاصل ہوئی اور اس میں سرمایہ سے زیادہ ذہانت کی ضرورت تھی، پاکستان اس امتحان میں سرخرو ہوا اور ایٹمی صلاحیت کا حصول پاکستانی قوم کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستانی قوم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جیت بھی ایک کامیاب داستان ہے اور پاکستان نے اکیلے دہشت گردی کا قلع قمع کیا۔ دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم نے 150 ارب ڈالر اور80 ہزار سے زائد جانوں کا بھاری نقصان برداشت کیا مگر ہمارا عزم متزلزل نہ ہوا۔ یہ پاکستانی قوم کی اولوالعزمی، بہادری اور عزم کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پاکستان کے سیکورٹی اداروں بشمول افواج پاکستان ، پولیس، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور بالخصوص پاکستانی قوم پر فخر ہے کہ جن کی قربانیوں سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ملی۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان نے انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کے تصور کے تحت پچھلی چار دہائیوں سے 35 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزینوں کو بھی پناہ دے رکھی ہے، اس کے مقابلے میں مغربی ممالک جو ہمیں انسانیت اور انسانی حقوق کا درس دیتے نہیں تھکتے ، وہ اپنے تعصب اور مفاد پرستی کی وجہ سے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں حالانکہ کچھ مغربی ممالک ان پناہ گزینوں کے خطوں میں مخدوش حالات کے ذمہ دار بھی ہیں۔ سپر پاورز کی عاقبت نااندیش پالیسیوں ، غیر ذمہ دارانہ اقدامات، مفاد پرستی اور تعصب کی وجہ سے دنیا بھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا، یہ پاکستانی قوم کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ ہم نے نہ صرف انسانی ہمدردی کے تحت لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کی بلکہ دہشت گردی کو بھی شکست دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں نے سیلاب، زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات میں بھی زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا اور جذبہ ایثار کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ خدمت خلق ، خیرات اور مخیر حضرات کا یہ جذبہ بہت انوکھا ہے اور انسان کی بہت بڑی طاقت ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستانی قوم نے کورونا کے خلاف بھی بڑی کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی قوم میں ایک بہت بڑی ارتقائی تبدیلی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار کورونا کے خلاف کامیاب اقدامات کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں صورتحال ابتر رہی مگر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعام کی وجہ سے پاکستان میں صورتحال قابو میں رہی۔ انہوں نے ان چار عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جن کی بدولت پاکستان نے بحیثیت قوم کورونا وبا کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل سے بحیثیت ِ قوم آزمائش کی اس گھڑی میں سرخرو ہوا اور ہمیں کورونا کے خلاف کامیابی نصیب ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم عمران خان کے دل میں غریب کیلئے ہمدردی کا احساس تھا، اس احساس کی بدولت ہی وزیرِاعظم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بساط بچھائی اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم مکمل لاک ڈائون نہیں کریں گے، بہت سے سیاستدان، میڈیا، ڈاکٹرز اور ایکسپرٹس نے ہم آواز ہو کر کہا کہ اگر مکمل لاک ڈائون نہ لگایا گیا اور معیشت کو مکمل طور پر بند نہ کیا گیا تو یہ وبا اتنی پھیل جائے گی کہ لوگ سڑکوں پر پڑے ہوں گے۔ اس کا عملی نمونہ دنیا نے ہمسایہ ملک میں دیکھا جہاں کورونا کی صورتحال بھیانک حد تک بے قابو ہوئی اور ہم نے لوگوں کو آکسیجن کے سیلنڈروں کے ساتھ بازاروں میں پڑے ہوئے دیکھا اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ مودی حکومت کے غلط فیصلوں کا نقصان بھارتی عوام اور معیشت کو برداشت کرنا پڑا اورلاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ بالکل انوکھا موقف اپنانے پر وزیراعظم کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر وزیرِاعظم غریبوں ، ناداروں اور دیہاڑی دار مزدوروں کیلئے “ہمدردی اور احساس” کے جذبے سے سرشار اپنے موقف پر قائم رہے۔ افراد صرف اعداد و شمار نہیں ہوتے کہ جن کی بنیاد پر فیصلے کئے جائیں بلکہ ہمیں اپنی فیصلہ سازی میں ہمدردی اور انسانیت کے جذبوں کو بھی مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
صدر مملکت نے این سی او سی کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ٹوٹل لاک ڈاون کی بجائے سمارٹ لاک ڈائون متعارف کرائے اور اعداد و شمار پر مبنی سائنسی ٹارگٹڈ اپروچ کے تحت مخصوص متاثرہ علاقوں کو بند کیا۔ سمارٹ لاک ڈائون کا لفظ جو بعد میں دنیا میں مشہور ہوا، اس کی شروعات پاکستان میں ہوئی اور ہماری انسداد کورونا حکمت عملی کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ غریب کا یہ احساس صرف سمارٹ لاک ڈائون تک محدود نہیں تھا بلکہ پاکستان میں احساس پروگرام کے تحت غریبوں اور معاشرے کے نادار طبقات کے معاشی تحفظ کیلئے 12 ہزار روپے امداد کے طور پر بھی دیئے گئے تاکہ کورونا کی عالمی آزمائش کے دوران غریب کا چولہا جلتا رہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ 1.5 کروڑ سے زائد خاندانوں میں تقریباً 179 ارب روپے کی خطیر رقم تقسیم کی گئی ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے “احساس ایمرجنسی کیش ٹرانسفر منصوبے” کو عالمی بینک نے دنیا کے چار بڑے سماجی تحفظ کے منصوبوں میں شامل کیا۔ اس کے برعکس غلط فیصلوں کا خمیازہ ہمارے پڑوسی ملک کو بھگتنا پڑا ۔ ایک اور عنصر کا ذکر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ جس کی وجہ سے پاکستان کورونا جیسے عالمی امتحان میں سرخرو ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ، علما اور مشائخ کے مثبت کردار کی وجہ سے مسلسل انسدادِ کورونا ایس او پیز اور اس وبا کی شدت اور سنگینی کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کی گئی۔ انہوں نے علما کرام کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
صدر مملکت نے اسلام کی زریں روایات اور اجتہاد کی بنیاد پر لوگوں کو تلقین کی وہ کورونا کے تدارک کیلئے ایس او پیز پر عمل کریں۔ یہ کتنی بڑی تبدیلی ہے کہ ہمارے علما نے بزرگوں کو گھر پر ہی نماز ادا کرنے اور مساجد میں لوگوں کو فاصلے سے نماز پڑھنے کی تلقین کی۔ سنت یہی ہے کہ کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھی جائے گی اور دنیائے اسلام میں فاصلے کے ساتھ کبھی نماز نہیں پڑھی گئی، مگر ہم نے ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے نماز قائم کی۔ ساری دنیا میں مساجد بند ہوئیں مگر ہم نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رکھیں اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو برقرار رکھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ سے معافی اور مدد کیلئے دعا کرتے رہے اور رمضان المبارک، محرم اور عیدین کے مواقع پر بھی علماء کے تعاون سے ایوانِ صدر سے ضابطہ کار جاری ہوئے اور پاکستانی قوم نے ایک مہذب قوم کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر عمل کیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ سب سے اہم کردار پاکستانی عوام کا مثالی نظم و ضبط تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سو فیصد افراد نے اس پر عمل کیا، سو فیصد عمل کبھی ممکن نہیں ہوتا مگر عوام کی ایک کثیر تعداد نے اس پر عمل کیا حالانکہ کئی ممالک میں عوام نے پابندیوں اور ماسک پہننے کے خلاف احتجاج بھی کئے مگر پاکستانی قوم اپنی قیادت کی رہنمائی پر عمل پیرا رہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ہمارے لئے باعث اعزاز ہے کہ حکومت کی موثر حکمت عملی کی وجہ سے زندگی کے معمول پر لوٹنے کی درجہ بندی میں پاکستان کو ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا۔ کورونا وبا کے دوران ہمارے طرزعمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اندر ایک عظیم قوم بننے کی صرف صلاحیت ہی نہیں بلکہ ایک عظیم قوم کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذہانت، مہاجرین کے معاملے میں انسانی ہمدردی ، دہشت گردی کا مقابلہ ، زلزلوں اور سیلاب میں جذبہ ایثار اور خیرات اور کورونا کا مقابلہ، ان کی وجہ سے ہم نے کامیابیاں حاصل کیں ۔ پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے بھی انہی پانچ عناصر کے ساتھ ساتھ دیانت دار لیڈرشپ بہت ضروری ہے۔ تین مزید امور ایسے ہیں کہ جن پر توجہ دے کر ہم پاکستان کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے سب سے پہلے ہمیں فیک نیوز پر قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معاشرے میں انتشار پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ فیک نیوز پھیلانا اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے اور اسلام ہمیں کوئی بھی خبر پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کرنے کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے سورة الحجرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم جذبات سے مغلوب ہو کر کسی قوم پر جا چڑھو، پھر تم کو اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔”قرآن کریم کی یہ آیت نہ صرف اقوام کیلئے بلکہ ہمارے میڈیا کیلئے بھی مشعل ِ راہ ہونی چاہئے کہ ہم بلا تصدیق و تحقیق کسی بھی خبر کو آگے نہ پھیلائیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور بریکنگ نیوز کے اس دور میں ہمیں اپنے اندر ٹھہرا پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ فیک نیوز اور پروپیگنڈا نہ صرف معاشرے میں غلط فہمیوں کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس سے عالمی امن کو بھی شدید خطرات ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ سب اچھی طرح سے واقف ہیں کہ کیسے جھوٹی خبروں اور غیر تصدیق شدہ رپورٹس کی بنیاد پر مغربی میڈیا نے عراق پر حملے کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی اقوام ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کے حوالے سے فیک نیوز کی بنیاد پر مشرق وسطی پر چڑھ دوڑی اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ آج پورا مشرق وسطی بالخصوص شام ، عراق اور لیبیا سلگ رہا ہے اور اس کے پیچھے فیک نیوز اور اسلاموفوبیا کا عنصر ہی کار فرما ہے، ہمارا دشمن بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے ۔ حال ہی میں یورپین یونین کی “ڈس انفو لیب” نے بھارتی فیک نیوز نیٹ ورک کو بے نقاب کیا۔ ان سب اقدامات کا مقصد پاکستانی عوام اور عالمی برادری کو پاکستان کے خلاف بدگمان کرنا تھا۔ مزید برآں اس سے ملتی جلتی چیز غیبت ہے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔ انہوں نے سورة الحجرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو ، اِس لئے کہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور (دوسروں کی) ٹوہ میں نہ لگو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟ سو اِسے تو گوارا نہیں کرتے ہو ، (پھر غیبت کیوں گوارا ہو)! تم اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ قرآن مجید کی یہ آیات ہمیں ہمیشہ مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے، یہ آیات نہ صرف ہمیں خارجہ پالیسی اور انفارمیشن پالیسی کے حوالے سے اہم ہدایات دیتی ہیں بلکہ اپنے معاشرتی رویوں کو سدھارنے کا بھی درس دیتی ہیں۔ غیبت ایک بہت بڑا گناہ ہے اور گمان کی بنیاد پر دوسروں کیخلاف خبر پھیلانا بھی غیبت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ تو اگر کوئی شخص اپنے بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا تو وہ گمان اور اندازوں کی بنیاد پر پھیلائی گئی خبر اور غیبت کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ قوم کی تعمیر میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی بھی ضرورت ہے اور اس میں چار کلیدی اداروں یعنی کہ گھر ، سکول، میڈیا اور محراب و منبر کا اہم کردار ہے۔ حال ہی میں میری درخواست پر اسلامی نظریاتی کونسل نے پاکستان کے سماجی مسائل سے نمٹنے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کیلئے خطبات پر مبنی ایک کتابچہ تیار کرنا شروع کیا ہے۔ اس کتابچے کا مقصد مساجد کے پیش اماموں کو ان 100 موضوعات پر مشتمل ایک تحقیقی مقالہ فراہم کرنا ہے کہ جن میں سے وہ مختلف سماجی موضوعات پر خطبہ دینے کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔ یہ مکمل طور پر اختیاری ہے اور حکومت اس سلسلے میں احکامات جاری نہیں کرے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح مسجد نبوی سے ایک عالمی سماجی انقلاب کی شروعات ہوئیں، اس کا سلسلہ پاکستان میں بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں پوری قوم بالخصوص سیاسی قیادت ، علما، میڈیا اور نوجوان نسل سے اپیل کرتا ہوں کہ ہم سب مل کر ملک کو درپیش سماجی ، معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے یک جان ہو کر کام کریں گے ۔ میں نے اپنی تقریر میں پاکستان کی پانچ صلاحیتوں کا ذکر کیا جو آپ حاصل کر چکے ہیں،ذہانت جو آپ نے کم سے کم ایٹمی دفاعی صلاحیت حاصل کرکے دکھائی، بہادری، ہمدردی کا جذبہ، خیرات کا جذبہ اور تین چیزوں کا ذکر کیا جن پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے، یعنی فیک نیوز، غیبت اور تربیت، اور جب یہ صلاحیتیں مکمل ہو جائیں گی اور اس میں آپ دیانتدار قیادت کی چاشنی ڈالیں گے جو موجود ہے تو میرا دل ، میرا دماغ، میرا جسم، میرا روواں روواں اور میرا ایمان یہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ایک چمکتا ، دمکتا، ابھرتا اور مسکراتا ہوا نیا پاکستان دیکھیں گے۔