اصلاحات ناگزیر،صحت کے معاملات پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے؛ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی میڈیا بریفنگ

12

اسلام آباد،5اکتوبر  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے   بتایا  کہ  معاون خصوصی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر فیصل سلطان نے کابینہ کو میڈیکل کالجوں میں داخلہ ٹیسٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ داخلہ ٹیسٹ ماہر ڈاکٹر اور ڈینٹسٹ پیدا کرتا ہے، میڈیکل تعلیم کا اعلیٰ معیار اس لئے ضروری ہے کہ ڈاکٹرز نے انسانی جان بچانا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی معیار کا یکساں داخلہ ٹیسٹ مرتب کیا جاتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے لیا جاتا ہے۔ داخلہ ٹیسٹ کا مقصد اصل ذہانت جانچنا ہے، ہر طالب علم کا امتحان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے تاکہ نقل کا امکان ختم ہو۔ ہر سال تقریباً دو لاکھ طالب علم میڈیکل داخلہ ٹیسٹ میں حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ایک ایسا پیشہ ہے جس میں کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا، پاکستان میں کوئی شخص ایسا نہیں چاہے گا کہ اس کا ڈاکٹر ایک ایسا شخص ہو جس کو اپنے پیشہ کے بارے میں معلومات ہی نہ ہوں۔ ڈاکٹری کی ڈگری کے معیارات اعلیٰ ہونے چاہئیں۔

 انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی 1960ءکی دہائی میں بنی، اس وقت پاکستان میں میڈیکل کالجوں کی تعداد کم تھی، پی ایم ڈی سی کے سٹرکچر میں ہر میڈیکل کالج کا ایک نمائندہ موجود تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب میڈیکل کالجوں کی تعداد بڑھتی گئی تو پی ایم ڈی سی کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ ہر کالج سے ایک نمائندے کو شامل کرے لہذا پی ایم ڈی سی نے کمیٹیاں بنانا شروع کر دیں۔ ان کمیٹیوں میں پرائیویٹ کالج کے لوگوں نے ریگولیٹر کو ہی کیپچر کر لیا جس کی وجہ سے ہمارے ہاں میڈیکل کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ پہلے پاکستان کے ڈاکٹرز کو پوری دنیا میں عزت و احترام سے جانا چاہتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کچھ ملکوں نے ہماری ڈگریاں ماننے سے انکار کر دیا ہے، اس سلسلے کو فوری سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ ایم ڈی کیٹ کا نیا فارمولہ پوری دنیا میں چل رہا ہے، امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں ٹاپ برینز اکٹھے ہو کر ایک ٹیسٹ دیتے ہیں اس ٹیسٹ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے میڈیکل کا امتحان دینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ یہ امتحان سو فیصد ٹیبلٹس پر ہو رہا ہے، اس میں کوئی پیپر شامل نہیں ہے چونکہ ہمارے پاس اتنی ٹیبلٹس اور انفراسٹرکچر نہیں ہے کہ ایک دن میں امتحان لیا جائے، یہ 30 دن پر محیط ہے۔ ایک پیپر جو پہلے آتا ہے وہ دوسری مرتبہ نہیں آتا، شفلر سافٹ ویئر کے ذریعے کسی بھی شخص کو پتہ نہیں ہوتا کہ کس جگہ پر کون سا پیپر آئے گا۔ دو لاکھ بچے اس امتحان میں بیٹھے، مجموعی نشستیں 20 ہزار ہیں، ان میں سے 50 ہزار بچے پاس ہوں گے اور ان میں سے بھی داخلہ صرف 20 ہزار بچوں کو ملنا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مقابلہ کتنا بڑھ گیا ہے، اس سے ڈاکٹری کے اسٹینڈرڈز کتنے بڑھ جائیں گے۔

 انہوں نے کہا کہ وکلاءکی طرح ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے والوں کے لئے بھی ایک ٹیسٹ ہوگا کہ وہ ڈاکٹری کے لئے فٹ ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں لیا جانے والا امتحان اتنا سخت نہیں ہے، گزشتہ سال 85 فیصد ڈاکٹروں نے یہ امتحان پاس کیا۔ پوری دنیا میں یہ امتحان لیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں احتجاج نامناسب ہے کہ ڈاکٹر کی فٹنس بھی چیک نہ ہو اور وہ ڈاکٹر بھی بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم صحت کے نظام میں کوئی رسک نہیں لے سکتے، ڈاکٹرفیصل   تجربہ کار آدمی ہیں، پاکستان کے اندر میڈیکل ایجوکیشن کے معیارات سو فیصد عالمی معیارات کے مطابق ہیں، ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے ڈاکٹرز بین الاقوامی معیارات سے کم تر ہوں۔