اسلام آباد،21جنوری (اے پی پی):لیگل فورم فار کشمیر نے آزاد کشمیر کے رہائشی اورانڈر ٹرائیل قیدی ضیاء مصطفیٰ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف ڈوزئیر جاری کردیا ہے،ڈوزئیر میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس واقعہ کی شفاف اور جامع تحقیقات کرے اور اس میں ملوث شرپسندوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے اور یہ تحقیقات پاکستان کے ساتھ شئیر کرے۔مقتول کی میت اس کے لواحقین کے حوالے کی جائے،بھارت میں قید تمام پاکستانی قیدیوں کا تحفظ،سلامتی اور انسانی ٹریٹمنٹ یقینی بنائے، جبکہ لندن میں قائم ایک قانونی فرم سٹوک وائٹ انوسٹی گیشن یونٹ نےبرطانوی میٹرو پولیٹن وار کرائم یونٹ کے پاس ایک درخواست دائر کروائی ہے جس میں بھارت کے آرمی چیف اور وزیر داخلہ کی بھارتی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں جنگی جرائم میں ان کے کردار پر گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جمعہ کو اسلام آباد میں لیگل فورم فار کشمیر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ناصرقادری ایڈووکیٹ نے قتل ہونے والے ضیاء مصطفیٰ کے بھائی ہارون الرشید خان، سابق ڈی جی شریعہ اکیڈمی ماہر امور کشمیر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد،مشعال حسین ملک،مدیحہ شکیل،حریت رہنمائوں کی موجودگی میں اس ڈوزئیر کا اجراء کیا ۔فرم سٹوک وائٹ کے مطابق میٹرو پولیٹن پولیس کے وار کرائمز یونٹ کو کافی شواہد جمع کرائے گئے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بھارتی جنرل نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی سربراہی میں بھارتی فوج نے صحافیوں اور شہریوں کو تشدد اغوا اور قتل کروایا گیا۔
ناصر قادری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سٹوک وائٹ کی رپورٹ 2020 اور 2021 کے درمیان پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے اس دوران 111 فرضی مقابلے ہوئے،اس میں 2,000 سے زیادہ شہادتیں ہوئی ہیں،15 سال کی عمر میں 2003 میں راولاکوٹ آزاد کشمیر کے شہری ضیاء مصطفیٰ کو گرفتار کیا گیا اس کے لواحقین نے راولاکوٹ تھانے میں اس کے لاپتہ ہونے کی20 جون 2003 کو ایف آئی آر کروائی، “مائنر” ہونے کے ناطے اس کا ٹرائیل نہیں ہوسکتا تھا تاہم دہشت گردی کے نام نہاد ایکٹ کے تحت اس کے شوپیاں ٹرائیل کورٹ میں کیس دائر کیا گیا تاہم وہاں سٹیٹ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی،2011 میں شوپیاں ٹرائیل کورٹ نے ایویڈنس کلوز کردئیے۔پھر ہائی کورٹ نے سٹیٹ کی اپیل خارج کی تو 2017 میں سٹیٹ سپریم کورٹ چلی گئی یہ کیس ابھی بھی وہاں التواء میں ہے لیکن اس اکتوبر 2021 میں انہیں جیل سے نکالا گیا کہ ایک انکائونٹر ہورہا ہے وہاں بھٹی ڈھیریاں میں جعلی مقابلہ میں اسے مارا گیا۔اس کے لواحقین نے اپنی رسائی کے مطابق راولاکوٹ میں قتل کی ایف آئی آر درج کروائی ،اکتوبر میں ضیاء کے خاندان نے لیگل فورم سے رابطہ کیا،اس کے علاوہ احسن اونتھو کو بار بار گرفتار کیا گیاان کا قصور یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مشتاق نے کہا کہ کشمیر میں اگر مزاحمت بالکل بند بھی ہو جاتی ہے تب بھی اس علاقہ کا انٹرنیشنل آرمز کنفلیکٹ کا درجہ برقرار رہے گا،یہاں قابض افواج اور بھارتی حکومت اس کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرسکتے۔تاہم بدقسمتی سے بھارت 5 اگست 2019 کے اپنے یک طرفہ اقدام کے بعد یہ سب کچھ کررہا ہے اس سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے،کشمیر میں بھارت جو کررہا ہے یہ محض انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں بلکہ جنگی جرائم ہیں۔انہوں نے کہا کہ ضیاء مصطفیٰ کا کیس ایک منفرد نوعیت کا ہے جہاں بھارتی حکومت اور اس کی عدلیہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہورہی ہے۔
مقتول کے بھائی ہارون الرشید نے بتایا کہ انہیں جب اپنے بھائی کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انہوں نے گمشدگی کی ایف آئی آر اس سے قبل درج کروا رکھی تھی،بعد ازاں ہمیں اس کی جانب سے ایک خط ملا کہ مجھے بہت تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ مجھے مار دیں گے۔24 اکتوبر 2021 کو سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ضیاء مصطفیٰ کو جعلی مقابلہ میں ماردیا گیا۔ہم انصاف کے متلاشی ہیں عدالت نے رہائی کے احکامات دیئے لیکن اس کمسن کو رہائی نہ ملی بلکہ اسے ماردیا گیا۔مشتاق الاسلام نے بتایا کہ احسن اونتھو کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے بھارتی قابض افواج کی جانب سے پیلٹ گنز کے استعمال کو بے نقاب کیا۔
مشعال ملک نے کہا کہ کشمیری مکمل طور پر غیر مسلح ہیں،کشمیر میں انسانی حقوق کا مسئلہ براہ راست انسانی حق خودارادیت سے جڑا ہے،یاسین ملک سمیت پابند سلاسل رہنمائوں کوبنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں۔ان رہنمائوں کو جیلوں میں زہر دیا گیا،کشمیریوں کی جدوجہد سب سے زیادہ پرامن ہے لیکن بھارت نے اسے دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کو ششیں کیں،اقوام متحدہ استصواب رائے کے حوالے سے اپنی قرادادوں پر عمل کروائے۔انہوں نے لیگل فورم کو کہا کہ وہ میرا کیس بھی لیں جس کے شوہر کو جیل میں رکھا جاتا ہے۔
اس موقع پر اس ڈوزئیر کی تیاری میں کردار ادا کرنے والے خلیل دیوان نے برطانیہ سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے،ہم برطانوی وار کرائمز یونٹ میں یہ کیس لے کرگئے ہیں،کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آوازاٹھانے والوں کو ہراساں کیا جاتاہے،انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات انہیں جان سے بھی ماردیا جاتا ہے،اس موقع پر حریت رہنمائوں فیض نقشبندی،شمیمہ شال، الطاف وانی، بیرسٹر سید قمر حسین سبزواری نے بھی اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر جاری کئے گئے جامع ڈوزئیر میں ضیاء کے عسکریت پسندی میں ملوث ہونے کے جھوٹ کا پول کھولا گیا ہے، ڈوزئیر کے ذریعے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ضیاء کے ماوراء عدالت قتل کی تحقیقات کے لئےانکوائری کمیشن مقرر کرے۔انٹرنیشنل سول سوسائٹی اور میڈیا بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی شہریوں کے تحفظ کے لئے مدد کریں۔ڈوزئیر میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس واقعہ کی شفاف اور جامع تحقیقات کرے اور اس میں ملوث شرپسندوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے اور یہ تحقیقات پاکستان کے ساتھ شئیر کرے۔مقتول کی میت اس کے لواحقین کے حوالے کی جائے،بھارت میں قید تمام پاکستانی قیدیوں کا تحفظ،سلامتی اور انسانی ٹریٹمنٹ یقینی بنائے۔معصوم شہری قیدیوں کے خلاف گھناونے جرائم کی حامل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے،مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق جاننے کے لئے آزاد میڈیا اور انسانی حقوق وسول سوسائٹی تنظیموں کو بلا رکاوٹ رسائی دی جائے۔جن پاکستانی قیدیوں نے بھرتی جیلوں میں اپنی سزائیں پوری کرلی ہیں انہیں رہا کیا جائے۔
ڈوزئیر میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ جیل میں کیسے ایک قیدی کو فون تک رسائی ہوسکتی ہے اور وہ دراندازوں کو گائیڈ لائن دے سکتا ہے،اس کی میت کیوں پاکستان کو واپس نہیں کی جارہی،18 سال قید میں رہنے والا ایک جنگل میں ٹھکانےسےکیسے آگاہ ہوسکتا ہے، برطانوی حکام کو دی جانے والی درخواست میں آٹھ اعلیٰ بھارتی فوجی حکام پر کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ھے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی حکام جموں و کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر تشدد کر رہے ہیں۔لندن پولیس سے درخواست “عالمی دائرہ اختیار” کے اصول کے تحت جمع کروائی گئی ھے، جو ممالک کو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔
سٹوک وائٹ میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر حاقان کاموز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے اور بالآخر ان اہلکاروں کو گرفتار کر لے گی جب بھی وہ برطانیہ میں قدم رکھیں گے۔پولیس درخواست آزاد جموں و کشمیر کے رہائشی ضیاء مصطفیٰ کے خاندان کی جانب سے دی گئی ھے ، جو 2021 میں بھارتی حکام کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے تھے، اور سری نگر میں مقیم انسانی حقوق کی مہم چلانے والے احسن اونتھو کی جانب سے، جو مبینہ طور پر گزشتہ ہفتے گرفتاری سے قبل تشدد کیا گیا،ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے پیلٹ گنز کے استعمال کا معاملہ اٹھایا اور ان کی وجہ سے فاروق ڈار کے کیس میں ایک بھارتی میجر کاکورٹ مارشل ہوا۔بھارت کشمیر میں آزادی کے لئے آواز اٹھانے اور انسانیت کا قتل عام کررہا ہے ۔
سٹوک وائٹ کی رپورٹ میں کشمیری حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز کی گزشتہ سال بھارتی حکام کے ہاتھوں گرفتاری کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے دیگر اکاؤنٹس میں صحافی سجاد گل کے بارے میں بات کی گئی ہے، جسے اس ماہ کے شروع میں گرفتار کیا گیا تھا جب اس نے ایک نوجوان کے قتل پر احتجاج کرنے والے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کی ویڈیو پوسٹ کی تھی۔