اسلام آباد،21اکتوبر (اے پی پی): قومی اسمبلی نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی شدید مذمت کی قرارداد اور فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2022ءکی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے جبکہ سردار اختر مینگل سمیت دیگر جماعتوں کے ارکان کے مطالبے پر بل میں سے ثبوت پیش نہ کرنے والے شکایت کنندہ کے لئے پانچ سال کی سزا کی شق حذف کردی گئی۔
جمعہ کو قومی اسمبلی میں وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے تحریک پیش کی کہ سینیٹ کی جانب سے ترامیم کے ساتھ منظور کردہ مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860ءاور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ءمیں ترمیم کرنے کا بل فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2022ءزیر غور لایا جائے۔ تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ یہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے کہ گمشدہ افراد کی ایف آئی آر بڑی مشکل سے درج ہوتی ہے،اس بل کے تحت اگر کوئی شکایت کنندہ ثبوت پیش نہ کر سکا تو اس کے لئے بھی پانچ سال کی سزا ہوگی۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کس طرح ثبوت دیں گے،ہمیں اس پر شدید اعتراض ہے۔
مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ بل مجموعی طور پر ٹھیک ہے مگر اس کی شق 514 کو نکالا جائے تو ہمیں باقی بل پر اعتراض نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے حکومت کو خود اپنے وسائل بروئے کار لانے چاہئیں۔ اسامہ قادری نے بھی اختر مینگل کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ سالہا سال سے جن کے پیارے گمشدہ ہیں جو لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے عدالتوں میں جاتے ہیں اس ترمیم کے ذریعے ان کے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں بھی اس شق پر میرا اختلافی نوٹ موجود ہے۔ وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ بل کے حوالے سے ارکان کی تشویش بجا ہے،حکومت نظرثانی کرے۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم یہ شق حذف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ امید ہے کہ باقی بل پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ سپیکر نے ایوان سے تحریک کی منظوری حاصل کی جس کے بعد انہوں نے بل کی تمام شقوں کی منظوری حاصل کی۔ وفاقی وزیر سید نوید قمر نے بل کی شق 514 حذف کرنے کی ترمیم پیش کی جسے بل میں شامل کرلیا گیا۔ وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے تحریک پیش کی کہ فوجداری قوانین (ترمیم) بل 2022ءمنظور کیا جائے۔ قومی اسمبلی نے بل کی منظوری دے دی۔
قومی اسمبلی نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی شدید مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی اور حق خودارادیت کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے اس حوالے سے قرارداد پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے یوم سیاہ کو یاد کرتے ہوئے بھارتی افواج کی جانب سے بھارتی غیر قانونی مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان بھارتی مسلح افواج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 96 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کی شہادت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان بھارتی دستور کے آرٹیکل 35 الف اور 370 میں ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کے غیر قانونی الحاق کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتا ہے کہ وہ کمیشن آف انکوائری تشکیل دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا نوٹس لے۔ یہ ایوان حق خودارادیت کے لئے کشمیری عوام کے عزم اور جدوجہد کی تجدید اور توثیق کرتا ہے اور اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔
بعد ازاں سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ایوان کی کارروائی پیر شام 5 بجے تک ملتوی کرد