اسلام آباد،12دسمبر (اے پی پی):قومی اسمبلی نے بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور تحفظ کا بل 2022ء کثرت رائے سے منظور کرلیا جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس قانون سازی کا تعلق صرف ریکوڈیک منصوبے کے حوالے سے سرمایہ کار کمپنی سے تصفیہ کی حد تک ہے، اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی جاسکے گی۔
پیر کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینٹ سے ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان نے ایک طویل قانونی چارہ جوئی کا سامنا کیا اور طویل قانونی جنگ کے بعد تمام عالمی فورمز کے دروازے کھٹکھٹانے کے بعد ساڑھے چھ ارب ڈالر کی ڈگری اس کے خلاف جاری ہوئی۔ اسی مقدمے سے ملتے جلتے دعوے پائپ لائن میں تھے جن کی مالیت اڑھائی ارب سے زائد ہونی تھی،ایسی صورتحال میں حکومت پاکستان نے ڈگری دار کمپنی بیرک گولڈ اور اینڈوفاگیسٹا کے ساتھ سیٹلمنٹ معاہدہ کیا جس کی صوبائی حکومت نے منظوری دی تھی، جس کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی اس کی منظوری دی۔ اس سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی درکار ہے، اس حوالے سے صدارتی ریفرنس بھی دائر ہوا’ جس میں کہا گیا کہ ریکوڈک کے حوالے سے پہلے معاہدے پر حالیہ معاہدہ اثرانداز نہیں ہوتا، بلوچستان اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں نے مجلس شوریٰ کو یہ اختیار دیا کہ وہ یہ قانون سازی کرے۔ سینٹ نے یہ بل منظور کیا ہوا ہے’ نو ارب ڈالر کا یہ تصفیہ بدھ تک ہونے کا امکان ہے ، اگر اس حوالے سے قانون سازی نہ کی گئی تو اس میں تعطل پیدا ہوگا اس لئے یہ بل پیش کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ پاکستان اور بلوچستان کے حق میں اس معاہدے کے فوائد تیس سال کے عرصہ میں اس کا تخمینہ 120 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، اس میں سے حکومت بلوچستان کو منصوبہ شروع ہونے پر دو ارب ڈالر سالانہ ایکوٹی حاصل ہوگی، وفاقی حکومت نے 460 ملین ڈالر صوبائی حصہ بھی ادا کیا اور اپنا حصہ سرنگوں کیا، اس کی پانچ فیصد رائیلٹی اور سات فیصد دیگر منافع کی رقم بھی حکومت بلوچستان کو جائے گی۔ اس کا 25 فیصد حصہ حکومت بلوچستان اور دیگر ملا کر 35 فیصد اس کے ثمرات بلوچستان کے عوام کے حصے میں آئیں گے۔ انہوں نے اجازت طلب کی کہ یہ بل پیش کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ بلوچستان کے عوام کا دیرینہ مسئلہ حل ہو سکے۔
وفاقی وزیر نے فارن انوسٹمنٹ پروموشن اینڈ پروٹیکشن بل 2022ء سینٹ کی جانب سے منظور کردہ صورت میں بل ایوان میں پیش کیا جس کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر جان مینگل نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر اور آٹھ سو کلو میٹر کا ساحل بلوچستان کے عوام کی زندگیوں میں انقلاب لائے گا۔ نظریہ ضرورت اور مفادات پر قانون سازی کی جاتی ہے، اسی کمپنی کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو سپریم کورٹ نے کس بنیاد پر مسترد کیا، پھر صدارتی ریفرنس کے ساتھ حکومت سپریم کورٹ گئی تو اس کی بنیادی وجوہات کو نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم لانے والے اب یہ اختیار وفاق کو دے کر اس کے مجرم ٹھہریں گے۔
مولانا عبدالواسع نے کہا کہ وہ اس بل کی مخالفت کرتے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ اختیار صوبے کا تھا اس حوالے سے سندھ اسمبلی سے بھی قرارداد منظور کرائی گئی، بلوچستان کے وسائل بلوچستان کے عوام پر خرچ ہونے چاہئیں اس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہے۔ ریکوڈک کے حوالے سے ایوان میں لائی جانے والی قانون سازی کے حوالے سے ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے ہمارا اجلاس ہوا،ریکوڈیک کے حوالے سے قانون سازی پر ہم نے رضامندی ظاہر کی تاہم اس کی آڑ میں تمام اختیارات اپنے پاس لینے کی اجازت کوئی بلوچستان کا بچہ نہیں دے سکتا۔ بلوچستان سے نکلنے والی گیس وہاں کے مقامی لوگوں کو نہیں دی جاتی۔ سی پیک میں بھی بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے اختیارات ہم دے سکتے ہیں تاہم صوبے سے تمام اختیارات نہ لئے جائیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی پہلے دن سے یہ ترجیح ہے کہ صوبہ بلوچستان کو اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ فوائد ملنے چاہئیں۔ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت نے مل کر نو ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیوں کی بجائے بلوچستان کو 35 سے 40 ارب ڈالر ملیں گے۔ اس قانون سازی کے تحت صوبے کے کوئی اختیارات حاصل نہیں کئے جارہے۔ صوبائی حکومت وفاق کو اٹھارہویں ترمیم کے تحت کسی بھی قانون سازی کا اختیار دے سکتی ہے اور آرٹیکل 144 کے تحت وہ یہ اختیار واپس بھی لے سکتی ہے۔ سندھ اسمبلی نے بھائی چارہ کے تحت بلوچستان اسمبلی کی قرارداد کی حمایت کی۔ جس کمپنی سے تصفیہ ہوا ان کی شرط تھی کہ ریاست پاکستان اس منصوبے کی ساورن گارنٹی دے، اسی نیت سے یہ قانون سازی کی جارہی ہے۔ بلوچ قائدین کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی، وزیراعظم نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ قانون صرف ریکوڈیک کے حوالے سے ہے’ کیونکہ اگر کل تک ڈیل کو حتمی شکل نہیں دی جاتی تو ریاست پاکستان کو نو ارب ڈالر ادا کرنے پڑیں گے۔ وفاقی حکومت بلوچ قائدین کو نظر انداز کرکے کوئی کام نہیں کرتی۔ یہ قانون صرف ریکوڈیک منصوبے پر لاگو ہوگا۔ اس میں جو ترمیم درکار ہوئی اس کا وعدہ کرتے ہیں تاہم آج یہ بغیر ترمیم کے قانون منظور کیا جائے، یہ یقین دہانی وزیراعظم کی منظوری سے دے رہے ہیں۔
سپیکر نے یہ بل سینٹ سے منظور کردہ صورت میں ایوان میں زیر بحث لانے کی تحریک پیش کی جس کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد سپیکر نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی۔ سپیکر نے پہلے دوسرے اور تیسرے شیڈول کی منظوری لی جس کے بعد وزیر قانون نے بل منظوری کے لئے پیش کیا جس کی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دے دی۔