اسلام آباد،22مئی(اے پی پی):سیکرٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں “نارملسی” کا جعلی بیانیہ پیش کرکے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں انڈیا سٹڈی سنٹر کے زیر اہتمام عالمی شہرت یافتہ محقق آنجہانی الیسٹر لیمب کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں ایک نامور محقق اور تاریخ دان الیسٹر لیمب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جنہوں نے سچائی کے حصول کے لیے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔
سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ایلسٹر لیمب کی تحریروں نے تنازعہ جموں و کشمیر کے تاریخی تناظر، قانونی پیچیدگیوں اور انسانی حقوق کے مضمرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایلسٹر لیمب کی علمی خدمات کو تسلیم کرنے کا یہ صحیح وقت ہے کیونکہ بھارت جی 20 کی سربراہی کے طور پر اپنی حیثیت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور اس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں“نارملسی” کے جعلی بیانیے پھیلا کر بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اور ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز سہیل محمود نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ آج سرینگر میں جی 20 ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کر کے بھارت شدت سے اپنے ناجائز قبضے کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہا ہے جسے پاکستان اور کشمیری عوام نے شروع سے ہی مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایلسٹر لیمب نے کشمیر پر برطانوی آرکائیوز کا جائزہ لیا اور تنازعہ جموں و کشمیر کی ابتداءپر اپنی تحقیق کے ذریعے ریاست کے الحاق کے جواز کے بارے میں بھارتی کیس کو قطعی طور پر ختم کردیا۔ انہوں نے کہا کہ الیسٹر لیمب نے یہ ثابت کیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو نام نہاد الحاق پر دستخط نہیں کیا کیونکہ وہ اس روز سرینگر سے فرار ہوکر جموں جارہا تھا اور اس دن ان کے اور بھارتی نمائندوں کے درمیان کسی قسم کے رابطے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
سابق سیکرٹری خارجہ نے الیسٹر لیمب کو (بعد از مرگ) اعلیٰ سول ایوارڈ دینے، پاکستان یا آزاد جموں و کشمیر کی ایک معروف یونیورسٹی میں کشمیر سٹڈیز کے لیے الیسٹر لیمب چیئر کا قیام اور الیسٹر لیمب کے نام پر ایک لائبریری/ ریسورس سینٹر قائم کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔
ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سنٹر ڈاکٹر ارشد علی نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ الیسٹر لیمب کا انتقال علمی تحقیق کے شعبے کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ جموں و کشمیر کو سمجھنے کے لیے الیسٹر لیمب کا گہرا اثر و رسوخ سکالرز، محققین اور طلبہ کی آئندہ بھی متاثر کرتا رہے گا۔
حریت کانفرنس کے سابق کنوینر محمد فاروق رحمانی نے الیسٹر لیمب کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیسٹر لیمب ایک عظیم سیاسی تاریخ دان تھے اور کشمیری عوام کئی طرح سے ان کے مقروض ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو تنازعہ کشمیر کی تاریخ اور اس سے متعلق تمام پہلوئوں سے واقف کرانے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے اس موقع پر کہا کہ الیسٹر لیمب کے کام کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کشمیر سٹڈیز کو فروغ دینے کے لیے الیسٹر لیمب کی کشمیر پر تحقیق کو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ ممتاز کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے کہا کہ جوزف کوربل اور الیسٹر لیمب جیسے مصنفین کے کام نے تنازعہ کشمیر کی ابتدا سے متعلق واقعات کی واضح تصویر فراہم کی ہے، الیسٹر لیمب کی تحقیق کا بڑا حصہ بھارت سے نام نہاد الحاق پر دستخط کی تاریخ کو چیلنج کرنا تھا۔
چیئرمین بورڈ آف گورنرز انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز خالد محمود نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم برصغیر کے وقت بھارت نے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر ایک ہی بنیاد پر قبضہ کیا جبکہ اس نے جموں و کشمیر پر زبردستی ایک اور بنیاد پرقبضہ کیا۔ بھارت نے دنیا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے لیکن بعد میں وہ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا۔