اسلام آباد،23مئی (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمدہمایوں مہمند کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔جوائنٹ سیکرٹری وزارت صحت نے ملیریا، ایچ آئی وی/ایڈز اور ٹی بی کنٹرول پروگرام کے علاوہ گلوبل فنڈ سے ملنے والی امداد اور اس کی تقسیم پر کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی۔سینیٹرز نے حکام سے فنڈز اور کنٹرول پروگرام کے حوالے سے سوال و جواب کئے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک پاکستان کو گلوبل فنڈ کی جانب سے کل 1100 ملین ڈالر موصول ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہوسٹ ملک کو ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا چاہئے۔
کمیٹی نے حکام سے کہا کہ ایچ آئی وی کی روک تھام کیلئے گلوبل فنڈ سے جو گزارشات ہیں اس حوالے سے نوٹ کمیٹی کو دے دیں جس کی کمیٹی توثیق کرے گی اور تجاویز بھی نوٹ کے ہمراہ گلوبل فنڈ کو بھیجے گی-حکام کا کہنا تھا کہ ہوسٹ ملک ہونے کے باوجود “اے ایس پی(ایڈیشنل سیف گارڈ پالیسی)” منسوخی کے بعد پاکستان ایچ آئی وی/ایڈز اور ٹی بی کے خلاف مہم نہیں چلا سکتا،کوشش کر رہے ہیں کہ “اے ایس پی” کو بحال کیا جائے،ریڈیو میں بہت موثر آگاہی مہم چلا رہے ہیں اور پہلی دفعہ 150 ملین لوگوں تک ہماری آواز پہنچی ہے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ ایچ آئی وی/ایڈز والوں کیلئے کمیونٹی کئیر سنٹر بنا رہے ہیں تاکہ یہ لوگ ایک ہی کمیونٹی میں رہیں-اسپیشل سیکرٹری وزارت صحت نے بتایا کہ “بلڈ ٹرانسفیوژن کے دوران ایچ آئی وی کی اسکریننگ نہیں کی جاتی اس کے علاوہ جو پاکستانی ڈی پورٹ ہو کر وطن واپس آرہے ہیں ان کی میڈیکل کنڈیشن بھی نہیں دیکھی جاتی‘‘۔ گزشتہ سال تقریباً26000 پاکستانی جلا وطن ہو کرپاکستان آئے جن میں کسی کی اسکریننگ نہیں ہوئی۔انہوں نے تجویز دی کہ بغیر میڈیکل کنڈیشن/اسکریننگ کے کسی بھی جلا وطن شخص کو پاکستان قبول نا کرے،بہت سے جلا وطن ایچ آئی وی مثبت ہوتے ہیں۔
وزارت صحت کے حکام نے مزید کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں گلوبل فنڈ کی جانب سے 460 ملین ڈالرز پاکستان کو دیئے گئےہیں،فنڈ کا زیادہ حصہ ٹی بی کیلئے مختص ہے-کمیٹی نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ اتنے زیادہ مل رہے ہیں لیکن کیسز میں کمی نہیں آرہی بلکہ بڑھ رہے ہیں۔جوائنٹ سیکریٹری وزارت صحت نے بتایا کہ بلوچستان کیلئے گلوبل فنڈ کی جانب سے 26 گاڑیاں دی گئی لیکن پتہ نہیں کہ وہ گاڑیاں کہاں ہیں-چیف سیکریٹری بلوچستان کے ساتھ معاملے کو اٹھایا ہوا ہے۔
سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران اسلام آباد میں 118 ایچ آئی وی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاج معالجے کی مشین جو پمز میں ہے اس پر راولپنڈی، جہلم، اٹک سے بھی لوگوں کا کافی لوڈ ہے۔جوائنٹ سیکریٹری نے کہا کہ بہت جلد ڈبلیو ایچ او کی طرز پر ایپ لانچ کر رہے ہیں جس کے بعد ادارے کی کارکردگی کی رپورٹ بھی ڈبلیو ایچ او کے ڈیش بورڈ میں دیکھی جاسکےگی۔
کمیٹی نے سینیٹر نصیب اللّہ بازئی کی جانب سے پیش کیا گیا ‘‘دی پرائم یونیورسٹی آف نرسنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد بل 2022’’ کو متحرک کے نہ ہونے کی وجہ سے خارج کردیا گیا-چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ 500 دن ہوگئے ہیں یونیورسٹی بل پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی جبکہ سینیٹر نصیب اللّہ بازئی نے بھی بتایا کہ وہ اس معاملے کی نمائندگی نہیں کرتے۔چئیرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو اس بل کو دوبارہ ایجنڈے پر رکھ دیں گے۔
کمیٹی میں سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کیاگیا ‘‘دی پاکستان فارمیسی(ترمیمی) بل 2022’’ طویل بحث کے بعد متفقہ طورپر منظور کرلیا گیا۔کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ فارمیسی کونسل کی جانب سے جس شق پر خدشات کا اظہار کیا گیا کمیٹی اس کو خود دیکھے گی۔ شہری حاجی عبدالوہاب کی خیبرپختونخوا صوبے کو تعلیم اور صحت کیلئے فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے عوامی عرضی نمبر 5226 کو بحث کے بعد خارج کردیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے بتایا کہ فنڈز کا معاملہ صوبوں کا اختیار ہے لیکن اپنے دائر اختیار میں رہتے ہوئے کمیٹی محکمہ صحت خیبرپختونخوا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی صحت کو معاملے کے حوالے سے خط ضرور لکھے گی۔ سینیٹرفوزیہ ارشد کی جانب سے اسلام آباد کے دیہی اور شہری علاقوں میں ڈینگی کے پھیلاو اور سینیٹر مہرتاج روغانی کی جانب خیبرانسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ چلڈرن ہسپتال پشاور کو فنڈز کی عدم فراہمی کے معامللات موور نا ہونے کی وجہ سے موخر کردیئے گئے۔ صدر پی ایم ڈی سی نے کونسل ممبرز کی تقرریوں کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا-صدر پی ایم ڈی سی نے بتایا کہ چارج سنبھالنے کے بعد کونسل کی ابتدائی ایک میٹنگ ہو چکی ہے اگلی میٹنگ چند روز میں متوقع ہے۔
کمیٹی ممبران کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کونسل ممبران کی تقرریاں میرٹ پر ہوئی ہیں جبکہ تقرری بھی وزیراعظم خود کرتے ہیں-سینیٹر سردار شفیق ترین نے کونسل ممبران کی تقرریوں کے حوالے سے چند تحفظات کا اظہار کیا اور کونسل ممبران کے کوائف دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جس کے بعد چئیرمین کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں کونسل ممبران کی تقرریوں بارے پی ایم ڈی سی حکام سے دوبارہ بریفنگ طلب کر لی۔ وزارت صحت نے میڈیا میں کونسل ممبران کی میرٹ اور قانون کے برخلاف تقرریوں کے حوالے سے خبروں کی تردید کردی۔