آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور سی ڈی اے کے اشتراک سے سہ روزہ اسلام آباد ادبی میلہ 2023 اختتام پذیر ہوگیا

13

 

اسلام آباد،5نومبر  (اے پی پی):آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے اشتراک سے سہ روزہ اسلام آباد ادبی میلہ 2023 اختتام پذیر ہوگیا، ادبی میلے میں ملک بھر کے نامور لکھاریوں، ادب، ثقافت، صحافت، فنون، سیاستدان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور نامور شخصیات سمیت شہریوں کی کثیر تعداد نے بھی شرکت کی۔ادبی میلے کے آخری روز چیئرمین سی ڈی اے کیپٹن (ر) انوار الحق نے بھی شرکت کی۔

 اسلام آباد میں منعقدہ نویں ادبی میلے کے تیسرے اور آخری روز بھی رنگا رنگ پروگرام پیش کئے گئے۔تیسرے دن کا آغاز انتظار حسین آڈیٹوریم میں عامر جعفری اور آغا سجاد حسین کے پروگرام ”آگ کا دریا: برصغیر کی کہانی قرت العین کی زبانی” پروگرام سے کیا گیا۔ اسکے بعد سنیئر صحافی حامد میر کے ساتھ ملکی سیاسی و معاشی مسائل پر سوالات جوابات کا سیشن ہوا اور اسکے بعد منیزہ ہاشمی اور عائشہ سرواری کا پروگرام پیش کیا گیا۔ پاکستان کے معروف لکھاری”سعادت حسن منٹو: آ ڈرامہ کریں”پروگرام بھی حاضرین پروگرام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی اور معاشی چیلنجز کے حوالے سے بھی پروگرام پیش کیا گیا جس میں ملیحہ لودھی اور عزیز چوہدری نے خوبصورت اور منفرد انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس کے بعد انسانی حقوق سے متعلق پروگرام بھی پیش کیا گیا جس میں سینئر صحافی حارث خلیق، اطہر عباس، عادل شاہ زیب، عاصمہ شیرازی، مطیع اللہ جان سمیت سماجی رہنما فرزانہ باری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اسی طرح دی پاور آف سٹوری ٹیلنگ  پروگرام بھی پیش کیا گیا جس میں معروف ہدایت کار سرمد کھوسٹ، ثمر من اللہ، امردیپ سنگھ سمیت عثمان مختار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اردو ادب میں گفتگو کرنے کے مختلف انداز پر روشنی ڈالی۔

اسلام آباد ادبی میلے کے تیسرے اور آخری روز پروین شاکر ہال میں مضبوط پاکستان: سماجی ثقافتی اثرات پروگرام پیش کیا گیا جس میں معروف سیاستدان مشاہد حسین سید اور حیا فاطمہ سہگل نے مضبوط پاکستان کے سماجی اور ثقافتی اثرات پر روشنی ڈالی۔اسی طرح پروگرام میں ہما بقائی اور اکرام سہگل نے تفصیلی ڈسکشن کرتے ہوئے پاکستان کے داخلی و خارجی امور سمیت سیکورٹی پالیسیز اور ہر طریقے سے پاکستان کو ایک محفوظ ملک بنانے پر روشنی ڈالی۔اسکے بعد  پروگرام میں معروف کالم نگار اکرام سہگل، زاہد حسین اور ویکٹوریا سیکوفیلڈ نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے اور مضبوط تعلقات پر روشنی ڈالی۔

ارشد محمود نوشاد اور محمد اظہار الحق نے”اے آسمان نیچے اتر از اظہار الحق”پروگرام پیش کیا۔چوہدری فیصل مشتاق، ارشد سعید حسین، مریم چغتائی اور میاں عمران مسعود نے نصاب، درسی کتب، اعلی سطحی جائزہ، مستقبل کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اسکے بعد پروگرام”عشق نامہ شاہ حسین: تصوف، ملامت، سنگیت، کلام از فرخ یار” پیش کیا گیا جس میں شریف اعوان، فرخ یار، کشور ناہید سمیت ارشد محمود نوشاد نے شرکت کی۔

پروگرام”ترجمہ نگاری کی اہمیت”بھی پیش کیا گیا جس میں محمد علی فاروقی، انعام ندیم، یاسمین حمید سمیت ثروت محی الدین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اسی طرح کاروبار اور معیشت پروگرام میں ماہرین معاشی امور عائشہ غوث پاشا، محمد اظفر احسان، ندیم الحق سمیت ندیم حسین نے شرکت کی اور کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے سے ہوتا ہے کیونکہ کاروبار کا معیشت کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔

امجد اسلام امجد ہال میں”راول راج: راولپنڈی اسلام آباد تاریخ تہذیب اساطیر از سجاد اظہر”پروگرام میں سجاد اظہر اور فرخ یار کے درمیان جڑواں شہروں کی تاریخ، تہذیب و ثقافت سمیت روایات پر تفصلی ڈسکشن ہوئی۔اسکے بعد پروگرام”جہاں آباد کی گلیاں از اصغر ندیم سید”پروگرام پیش کیا گیا جس میں ملک کے نامور لکھاری اصغر ندیم سید نے ناصر عباس نیر کے ساتھ ڈسکشن کی جس کے بعد پروگرام  میں سفینہ دانش الہی اور طحہ کھیر کے درمیان ڈسکشن کو حاضرین پروگرام نے خوب سراہا۔اسی طرح  1980 کی دہائی کا آشوب پروگرام میں بھی معروف لکھاری اصغر ندیم سید اور کشور ناہید کے درمیان دلچسپ مکالمے کو خوب پزیرائی ملی۔

پروگرام ”دختر رومی از انعام ندیم”میں بھی انعام ندیم اور شہزاد شرجیل کے مابین گفتگو کو حاضرین پروگرام کی جانب سے بہت پسند کیا گیا۔مزید برآں”ہماری مٹتی ہوئی زبانیں”پروگرام میں معروف کالم نگار زبیر ترولی، زبیر احمد، طارق رحمان، زمان ساگر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آجکل کے دور میں بدقسمتی سے ہم لوگ اردو بولنے کو اچھا نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے ہم اپنی ثقافت اور زبان سے دن بدن دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اسکے بعد پروگرام میں وکٹوریا سیکوفیلڈ، آغا عمران حامد سمیت خاور ممتاز نے کالم نویسی اور صحافت  کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

 ادبی میلے کے آخری روز”میوزک ان کووڈ ٹائم البم لانچ”پروگرام میں شریف اعوان اور اطہر مسعود نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جسکو حاضرین پروگرام نے خوب سراہا۔اسی طرح ”سیاہ ہیرے از ثمینہ نزیر”پروگرام بھی پیش کیا گیا جس میں ثمینہ نزیر اور صنوبر نزیر کے درمیان ڈسکشن ہوئی۔اسکے بعد پروگرام میں راجہ چنگیز سلطان، ریشم امجد سمیت وقاص نعیم اور ماورہ بری نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔واضح رہے کہ اس ادبی میلے کے تینوں دن مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے انکو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور کہا کہ بین الاقوامی برادری سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں فوری جنگ بندی کے لئے موثر اقدامات اٹھائیں۔

میلے کے تیسرے اور آخری روز ملک کے نامور شاعر انور مسعود اور سینیٹر شیری رحمان نے اردو ادبی میلے کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انکی خصوصی کاوشوں کو بھی سراہا۔انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل میں اردو ادب کی اہمیت کو جدید طریقوں سے اجاگر کرنا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے فیسٹول ملک کے ہر شہر میں باقاعدگی سے منعقد ہونے چاہئیں۔معروف شاعر انور مسعود نے اردو ادب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ادبی میلے کے منتظمین کی کاوشوں کو سراہا اور علامہ اقبال کی شاعری کو قومی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا۔

 اس موقع پر سی ڈی اے کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز عبیرہ دلاور نے نویں اسلام آباد ادبی میلے کے کامیاب انعقاد پر منتظمین اور رضاکاروں کی خدمات اور سی ڈی اے کے بھرپور تعاون کو بھی سراہا۔ نویں اسلام آباد ادبی میلے کے تیسرے اور آخری روز غزل نائٹ کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں استاد حامد علی خان کہ غزلوں کے زریعے حاضرین پروگرام خوب لطف اندوز بھی ہوئے۔