نیویارک، 02 جولائی(اے پی پی ):اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر منیر اکرم نے کہا ہے کہ 2005 میں اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے دوران متعارف کرایا گیا، “حفاظت کی ذمہ داری (آر ٹو پی)” کا مقصد نسل کشی، جنگی جرائم، نسلی تطہیر اور انسانیت کے خلاف جرائم کا سدباب کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تحفظ کی بنیادی ذمہ داری خود ریاست پر عائد ہوتی ہے تاہم صرف اس صورت میں جب قومی حکام ایسا کرنے سے قاصر ہوں یا ایسا کرنے کو تیار نہ ہوں تو بین الاقوامی برادری سلامتی کونسل کے ذریعے ہر معاملے کی بنیاد پر اجتماعی کارروائی کر سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جنرل اسمبلی کے 97 ویں مکمل اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔
غزہ میں جاری نسل کشی اور ہندوستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں “حفاظت کی ذمہ داری (آر ٹو پی)” کے تصور اور روک تھام کی ناکامی کی واضح مثالیں ہیں جس میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے پروٹیکشن فورس بنانے کی تجویز دی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر سلامتی کونسل کو فوری طور پر غور کرنا چاہیے۔سفیر منیر اکرم نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ وہ نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام میں کس حد تک بہترین مدد کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی مثال سے یہ بات عیاں ہے کہ غیر ملکی قبضے کے تحت لوگوں کو حقوق کا زیادہ خطرہ درپیش ہے۔