اسلام آباد۔11جون (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے ۔
چیئرمین ایف بی آر اور حکومت کی معاشی ٹیم کے دیگراراکین کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں ، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا جائے گا، 9.4ٹریلین کی غیردستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری ہے،بجلی کے بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیرف اصلاحات پر خصوصی توجہ دی گئی ہےجس کی بڑی اہمیت ہے ، اس کا پہلا مقصد پروٹیکٹڈ رجیم کوتبدیل کرنا ہے تاکہ کیش اور انسانی وسائل میں بہتری آئے اس سے برآمدی شعبے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 7ہزار ٹیرف لائن میں سے 4ہزار پر اضافی کسٹم ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے،2700 میں کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کردی گئی ، اس طرح 2ہزار ایسی ٹیرف لائن ہیں جن کا تعلق خام مال سے ہے اور اس سے برآمدی صنعت کو یقینی طور پر فائدہ پہنچے گا، ٹیرف اصلاحات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کی کوشش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دیا جاسکے وہ دیا جائے تاہم اس میں ہم اپنی مالی گنجائش کے مطابق جاسکتے ہیں ، اسی طرح درمیانے درجے کے کارپوریٹ شعبے کےلئے سپر ٹیکس میں 0.5فیصد کی کمی کی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم نہیں ہوا ہے بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ ٹرانزیکشن کی لاگت اور اخراجات میں کمی لائی جائے، 5 مرلہ گھر بنانے والوں کومارگیج فنانسنگ میں سہولیات فراہم کررہے ہیں ، اس ضمن میں سٹیٹ بنک سے ہماری بات چیت جاری ہے اور یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھایا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پائے گئے امور کے مطابق کھادوں اور کیڑے مار ادویا ت پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا جس کا مقصد استثنائی رجیم کا خاتمہ ہے ، وزیراعظم کی ہدایت پر گزشتہ سال ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت ہوئی کہ یہ ٹیکس نہ لگائے جائیں ، یہ درست سمت میں قدم ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی تعمیل اور اصلاحات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10.3فیصد رہی جو آئندہ مالی سال میں 10.9فیصد ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں ، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا
جائے گا ۔
اس حوالے سے ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لیں گے اگرانفورسمنٹ کے اقدامات نہیں ہوں گے تو ہمیں 400 سے 500 ارب روپے تک کے ٹیکس لگانا پڑیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا تعلق افراط زر سے ہے ، پنشن اصلاحات کا عمل جاری ہے ، حکومت نے پنشن کو افراط زر سے منسلک کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت معیشت کا انجن ہے ، زرعی جی ڈی پی میں ڈیری اور لائیو سٹاک کا حصہ 60فیصد کے قریب ہے ، سٹوریج سہولیات ، فنانسنگ میں اضافہ اور چھوٹے کسانو ں کو قرضے فراہم کئے جائیں گے ۔ اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے جوشعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں، وفاقی حکومت ان میں بھرپورمعاونت فراہم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے بنچ مارک ہونا چاہئے ، پوری دنیا میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہوتا ہے ، حکومت نے ٹیکسوں میں زیادہ اضافہ نہیں کیا ، اس کے برعکس کفایت شعاری اوراخراجات میں کمی کی گئی ہے ، اس سال حکومتی اخراجات میں 1.9فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ہے ، حکومت سبسڈیزکو ختم کررہی ہے جبکہ قرضوں کے انتظام و انصرام کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے ، وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی ہماری ترجیح ہے ، اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا ہے کیونکہ جتنی بھی سہولیات عوام کو فراہم کی جارہی ہیں وہ قرضے لے کر دی جارہی ہیں ۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ معیشت کو دستاویزی بنانا وقت کی ضرورت ہے اس وقت غیر دستاویز معیشت کا حجم 9.4ٹریلین ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ این ایف سی سے متعلق امور صوبوں کی مشاورت سے آگے بڑھائے جائیں گے، این ایف سی کے حوالے سے نامزدگیا ں منگوائی گئی ہیں ، وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ اگست میں این ایف سی کا اجلاس ہوگا ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کے بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا ، وزرا اور پارلیمنٹیرین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ آخری دفعہ 2016 میں وزرا کی تنخواہوں کو ایڈجسٹ کیا گیا تھا اس کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اس لئے تنخواہوں میں اضافہ زیادہ نظر آرہا ہے ۔
وفاقی سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے اس موقع پر کہا کہ کھادوں اورکیڑے مار ادویات پرگزشتہ سال ٹیکس لگنا تھا ، وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کی اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ آنے والے مالی سال میں اس کا اطلاق کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت میں بعض اقدامات صوبوں جبکہ بعض وفاق نے کرنے ہیں ، ہم نے آئی ایم ایف کو قائل کیا کہ اس سال ٹیکس نہ لگایا جائے ، ایگری فنانس پر کام ہورہا ہے ، وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں وزیراعظم کی ہدایت پر ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے، ان اقدامات کا بنیاد ی مقصد زراعت کا فروغ ہے ۔
سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال میں اخراجات کے رجحان کو دیکھا جائے تو حکومت نے حتیٰ المقدور کوشش کی ہے کہ اخراجات پر قابو پایا جائے جہاں ضرورت تھی وہاں اخراجات کئے گئے اسی وجہ سے جاری مالی سال میں اخراجات میں صرف 1.9فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ، مالی سال 2022 میں اخراجات میں 15.9فیصد ، مالی سال 2023 میں 23.6فیصد اور 2024 میں 12.2فیصد اضافہ ہوا تھا ۔