کشمیر، جنت نظیر وادی تاریخ کے آئینہ میں

481

اسلام آباد ، فروری 01( اے پی پی ): کشمیر، جنت نظیر وادی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا پر کوئی جنت ہے تو وہ یہی خطہ زمین ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین پھلوں، میوﺅں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلامی دوستی، محبت و بھائی چارے اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکر آتے ہی انہی چیزوں کا تصور ذہن میں آتا تھا مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلاؤ گھیراو ٔ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے بے پناہ جانی و مالی نقصانات کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں کیا۔

 کشمیریوں کی جرات و بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔

کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابرانہ فیصلے کے ذریعے اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی، انصاف کے عالمی دعویداروں نے ہمیشہ انصاف کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا۔ کشمیریوں نے آزادی کے لیے کئی لاکھ جانبازوں کی قربانی دی ۔

ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں، کرگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947ءمیں قائم ریاست جموں و کشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی ہے۔

15 اگست 1947 تک قائم ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84 ہزار 471 مربع میل ہے۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں (قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں مجموعی طور پر 7 میں سے 5 بڑی ایٹمی قوتوں پاکستان، بھارت، چین، روس (تاجکستان) اور افغانستان سے ملتی ہیں۔

کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز 16 مارچ 1846 میں معاہدہ امرتسر کے ساتھ ہی ہوا جس کے ذریعے گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا جبکہ گلگت بلتستان، کرگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی، مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمراں طبقہ اقلیتی تھا جبکہ خطے کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لئے حکمراں ہمیشہ مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔

تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں 85 فیصد مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ ریاست پاکستان کا حصہ بننا تھی مگر حکمراں چونکہ ڈوگرہ تھا اس لئے اس کی کوشش رہی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا مگر ڈوگرہ تاخیری حربے استعمال کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سرینگر کی طرف رخ کیا اور سرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مہاراجہ کشمیر دارالحکومت سے بھاگ کر جموں چلے گیا۔

26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے نہ صرف بھارت سے فوجی امداد طلب کی بلکہ بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دی اور بھارت چونکہ کشمیر پر قبضے  کے  موقع کی تلاش میں تھا لہٰذا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج کشمیر پر قابض ہوگئیں۔ او ر اس کے بعد آج تک کی تاریخ خون سے سرخ ہے اور کشمیریوں کی جہد مسلسل اسبات کی غمازی کرتی ہے کے یہ تمام مظالم انہیں آزادی کی جدوجہد سے روک نہیں سکتے اور یہ جدوجہد آزودی کے حصول تک جاری رہے گی ۔

اے پی پی / سعیدہ/حامد

سورس:وی این ایس اسلام آباد