آپ آزاد ہیں،آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو، قائد اعظمؒ

589

اسلام آباد، 24  دسمبر  (اے پی پی): قائد اعظم ؒ کی پچاس سال پر محیط سیاسی زندگی کی جدوجہد کا مرکز اور محوریہ اعلیٰ ارفع نظریہ تھا کہ بر صغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو سیاسی ، معاشی، معاشرتی اور مذہبی حقوق سے بہرہ ور کر کے ان کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ باوقار شہری بنایا جائے ۔ کانگریس کا رکن ہونے کے باوجود آپ نے امپرین قانون ساز کونسل میں جس طرح مسلمانوں کے حقوق کے حق میں آواز بلند کی وہ آپ کی ملت اسلامیہ بر صغیر جنوبی ایشیاء کے ساتھ گہری وابستگی کی مظہر ہے ،  آپ کو ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نمائندہ قومی سیاسی جماعت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔

مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد بھی آپ نے بھرپور کوشش کی کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بحیثیت ایک قوم زندہ رہنے کا حق دیا جائے ۔  کانگریس کا سر کردہ رکن اور لبرل رہنماء ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہندو ذہنیت کا قریب سے مشاہددہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ لہذا  ہندوقیادت سے مایوس ہونے اور نہرو کمیٹی کی مسلم کش دستوری سفارشات کو مسترد کرنے کے بعد آپ نے اپنے مشہور چودہ نکات کا جنوری 1929ء میں اعلان کر دیا۔  آپ نے یہ نکات پیش کر کے ہندوؤں پر حتمی طور پر یہ بات واضح کر دی کہ ان مطالبات کو کلی طور پر تسلیم کیے بغیر ہندوستان میں کوئی بھی دستوری ڈھانچہ نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے 28مارچ1929ء کو اپنے دہلی میں منعقد اجلاس میں گہرے غور و فکر کے بعد قائد اعظمؒ کے چودہ نکات کا تسلیم کرکے جماعتی پالیسی قرار دے دیا۔ ان نکات نے برصغیر کی جدوجہد آزادی مسلمانوں کے مؤقف کو واضح کر دیا تھا۔ مسلمانان برصغیر نے چودہ نکات کی مکمل تائید و حمایت کی جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کی قومی سیاست پر گہرے اثر ات مرتب کیا اور بر صغیر جنوبی ایشیاء میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔
نہرو کمیٹی کی سفارشات اور قائد اعظمؒ کے چودہ نکات کے اعلان کے بعد اب صورت حال یہ تھی کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے راستے حتمی طور پر جدا جدا ہو گئے ۔ انڈین نیشنل کانگریس نہرو رپورٹ کی بنیاد پر ہندوستان کیلئے وجدانی طرز حکومت کا آئین بنانے پر مصر تھی جبکہ مسلم لیگ قائداعظمؒ کے چودہ نکات کی بنیاد پر وفاقی طرز حکومت کا آئین بنانے کے مؤقف سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہ تھی بلکہ چودہ نکات میں سے ایک نکتہ بھی قربان کرنے کےلئے آمادہ نہ تھی۔

اس تعطل کی فضا میں جہاں ایک طرف حکومت برطانیہ نے نومبر 1930ء میں لندن گول میز کانفرنس طلب کی وہاں 29دسمبر 1930ء کو آلہٰ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس حضرت علامہ اقبالؒ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں حکومت برطانیہ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان پیدا کیا جائے ۔ اس اجلاس میں اپناطویل صدارتی خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے یہ اعلان کیا کہ،”ہندوستان انسانی گروہوں کا براعظم ہے جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف مذاہب کے پابند ہیں ان کی روش مشترکہ نسلی شعور پر مبنی نہیں ہے ۔ لہذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ بالکل حق بجانب ہے کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان پیدا کیاجائے “۔علامہ اقبالؒ نے خطبہ کے آخر میں یہ مطالبہ  بھی کیا کہ،” ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنے کے حق میں ہوں جو ’ آل پارٹیز مسلم کانفرنس ‘منعقد دہلی کی قرار داد میں پیش کیے گئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، شمال ، مغربی سرحدی صوبہ سندھ اور بلوچستان کو یکجا کر کے ایک متحدہ مملکت بنا دیا جائے ۔  ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا باہر حق خود اختیاری کی بنیاد پر مسلمانوں کی متحدہ مملکت کا قیام مجھے مسلمانوں کی قسمت کا کم از کم آخری فیصلہ نظر آتا ہے “۔
یہ تاریخی صداقت ہے کہ تقسیم ہند اور مسلمانوں کیلئے ایک آواز اور خود مختار اسلامی ریاست ( پاکستان ) کا قیام ایک ایسی قوم کا مطالبہ تھا جو اپنے جائز اور مبنی بر صداقت تاریخی مؤقف سے دستبردار ہونے کیلئے قطعاً تیار نہ تھی۔ بر صغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو اپنے عظیم قائد حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صلاحیتوں اور فکر و نظر کی دیانت و صداقت پر مکمل اورغیر متزلزل یقین و اعتماد تھا جن کی زیر قیادت وہ حصول پاکستان کی تاریخی اور صبر آزما جدوجہد میں مصروف عمل تھے۔

قائد اعظم ؒ نے متعدد مواقع پر اس یقین و اعتماد کا بڑے واضح اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ”ہم پاکستان کے مؤقف سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارا مطالبہ صداقت اور انصاف پر مبنی ہے اور ہندوستان کیلئے واحد حل بھی یہی ہے  “ہندو عوام ، انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماء نیشنلسٹ علماء ، سیاستدان اور حکومت برطانیہ سب ہی قیام پاکستان کے مخالف تھے ۔ برطانوی سیاستدانوں کے علاوہ برطانوی اور امریکی پریس بھی مطالبہ پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا تھا مسلم عوام اور مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز اور جرأتمندانہ مخلص قیادت میں ان تمام تر مخالفتوں اور مشکلات کے باوجود اپنی تاریخی جدوجہد جاری رکھی ۔ ہندو اور انگریز کی مخالفت اور نیشنلسٹ علما ء،  سیاستدانوں کی دشنام طرازی قائداعظم ؒ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکی۔  یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزرتی رہی مگر قیام پاکستان کا مطالبہ با ضابطہ طور پر 23مارچ 1940ء کو کیا گیا۔ مسلمانان بر صغیر جنوبی ایشیاء نے ایمان ، اتحاد اور تنظیم کے اعلیٰ اوصاف کی بدولت پاسبان ملت حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ  کی چودہ اگست 1947ء کو دنیا کے نقشہ پر ایک نئے ملک اور سب سے بڑی نظریاتی اسلامی ریاست کا اضافہ ہوا۔
بر صغیر جنوبی ایشیاء میں مسلم قومیت اور دو قومی نظریہ کے تصور کی بدولت حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ  کی قیادت اور رہنمائی میں معرض وجود میں آنے والی سب سے بڑی نظریاتی اسلامی ریاست پاکستان کے قیام کی تاریخی جدوجہد کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام عصر حاضر کی تاریخ کا ایک عدیم المثال واقعہ اور بے نظیر کرشمہ ہے ۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کو صرف اسی صورت میں مستحکم بنایا جا سکتا ہے جب ہمارے ملک میں خوف خدا، احترام آدمیت، جمہوریت کا نفاذ اور شہری آزادیوں کے تحفظ کا دور دورہ ہو گا۔ عوام کی امنگوں اور آرزوؤں کی تکمیل صرف اسی وقت ہو گی جب عدل و انصاف کا پرچم سر بلند ہو گا جب قانون کی حکمرانی کا راج ہو گا۔ جب ذرائع پیداوار اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی اور جب غربت جہالت کا خاتمہ ہو گاتاکہ عام پاکستانی سکھ اور چین کا سانس لے سکیں۔
ہمارے ملک میں بھی صرف مسلمان آباد نہیں ہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے جبکہ مسیحی برادری دوسری بڑی اقلیت ہیں جبکہ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اور کیلاشی نمایاں ہیں۔ ملک میں بسنے والے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ہر مذہب اور ہر فرقے کا احترام کریں اور اس لئے ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ  کی 11 اگست کی تقریر میں واضح طور پر کہا گیا کہ آپ آزاد ہیں،  آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے،  آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے،   آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔
اے پی پی /سحر/فرح

وی این ایس اسلام آباد