سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس

301

اسلام آباد ، 28 فروری(اے پی پی ):سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کے چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیرصدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں فاٹا اور بلوچستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں گزشتہ 5سالوں سے فیڈرل لیویز کی کارکردگی، ان کی کامیابیوں سمیت قواعد وضوابط، 2010-11 سے لے کر اب تک فنڈز کی تخصیص لیویز کی فروغ کی ڈسٹرک وار حکمت عملی کی تفصیلات کے علاوہ شہید اور وفاقی لیویز کے زخمی اہلکار کی تفصیلات اور ان کی شہادت کے بعد ورثاء کے لئے مراعات اور فیڈرل لیویز میں کام کرنے والے اہلکاروں کی تعیناتی کے طریقہ کار پر بحث ہوئی۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں لیویز کی کارکردگی اور دی گئی مراعات کے بارے رپورٹ زیربحث لاتے ہوئے چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے لیویز کی محنت اور کام کو اہمیت دینے اور تسلیم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ لیویز کی کارکردگی اور محنت کو سراہا کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ لیویز کو کم فنڈ دینے اور انہیں نظرانداز کرنے پر مذمت کرتے ہوئے کہاباقی اداروں کی طرح لیویز کو سالانہ بجٹ پر ضرورت کے مطابق فنڈز مہیا کئے جائیں، کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ لیویز اہلکاروں کی پروموشن تعلیمی قابلیت کے بجائے تجربے کی معیاد پر کی جاتی ہے۔

کمیٹی نے فاٹا میں موجود لیویز کی خالی آسامیوں کی بھرتی میں تاخیر کا نوٹس لیا۔ جس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2220 خالی آسامیاں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لیویز سپاہیوں کی پروموشن بھی نہیں ہوتیں۔ سیکرٹری وزارت سفیروں نے بتایا کہ فنانس کے فنڈز نہ دینے کی وجہ سے سپاہی رینک کی پروموشن پر وقتی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میں لیویز کو پولیس کے ساتھ ضم کرنے کے ارادے سے نئی بھرتیاں نہیں کی جا رہی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے غیررضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کے اگلے اجلاس میں بلوچستان اور خیبرپختون خواہ کے ہوم سیکرٹری اور چیف سیکرٹری کو طلب کر لیا ۔

بلوچستان لیویز کی مکمل تفصیل و جائزہ کی رپورٹ دیتے ہوئے ہوم سیکرٹری بلوچستان نے بتایا کہ بلوچستان لیویز دراصل ایک کمیونٹی پولیس کا کردار ادا کر رہی ہے اور بلوچستان کا نوے فیصد انتظامی علاقہ لیویز کے زیرنگرانی ہے جبکہ صرف دس فیصد علاقہ پولیس کی نگہداشت میں ہے اور اس نوے فیصد پر لیویز کو 10ارب جبکہ 10فیصد پر پولیس کو 23ارب فنڈز دیئے گئے اور 2003 کے بعد سے اسلحہ، ٹرانسپورٹ اور دیگر مراعات کی مد کچھ نہیں مہیا کیا گیا۔

بلوچستان لیویز کو دی گئی مراعات کے بارے میں بتاتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ لیویز کے ملازمین کو پولیس کے ملازمین سے 20فیصد کم تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بتایا گیا کہ بلوچستان میں موجود فیڈرل لیویز کو پینشن اور شہید اہلکار کے خاندان کو دی جانے والی مراعات حاصل نہیں جو کہ صوبائی لیویز کو دی جا چکی ہیں اس پر سیکرٹری وزارت سفرون نے بتایا جب تک فیڈرل لیویز کے قواعد و ضوابط طے نہیں ہو جاتے تب تک ان کو یہ مراعات نہیں دی جا سکتی۔

چیئرمین کمیٹی نے ایک ماہ کے مقررہ وقت میں رولز ڈرافٹ کو منسٹری بھیجنے کے بعد کمیٹی کو آگاہ کرنے کی ہدایت جاری کی اور کہا کہ لیویز کے شہید ہونے والے اہلکاروں کے خاندان کو مکمل پیکج دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ چیئرمین کمیٹی نے اگلے اجلاس میں ملٹری، فوجی، ایف سی، رینجرز اور لیویز کے شہدائ کے خاندان کو دی جانے والی سہولیات و مراعات کے موازنے پر مبینہ رپورٹ طلب کی۔

سیکرٹری وزارت سفرون نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بلوچستان لیویز کی طرف سے سالانہ بجٹ طے کرتے وقت کسی قسم کے فنڈز کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جبکہ ان کو اس مقصد کے لیے وزارت سفرون کی طرف سے خط بھی لکھے گئے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے بلوچستان لیویز کو آنے والے بجٹ سے پہلے تیاری اور فنڈز کے مطالبات کو بجٹ سے پہلے پیش کرنے کی ہدایت جاری کی اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں بلوچستان کے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، ڈی جی لیویز، وزارت فنانس بلوچستان، ہوم سیکرٹری فاٹا اور وفاقی وزارت خزانہ کو طلب کر لیا۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر فدا محمد، سینیٹر نگہت مرزا کے علاوہ سیکرٹری وزارت سفرون، سپیشل سیکرٹری ہوم بلوچستان اور لیویز کے اعلیٰ احکام نے شرکت کی۔

سورس:وی این ایس،اسلام آباد