حالیہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے بنیادی شرط تھی؛ سینیٹر شبلی فراز

106

اسلام آباد ، 19 ستمبر (اے پی پی): وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ حالیہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے بنیادی شرط تھی، ماضی کے حکمران منی لانڈرنگ میں ملوث تھے، ماضی کے حکمران خود کالا دھن سفید کرتے تھے اسی لیے قانون نہیں بناتے تھے، حکومت چاہتی ہے کہ ملک جلد سے جلد گرے لسٹ سے نکلے، اگر قانون سازی نہ کرتے توملک بلیک لسٹ میں شامل ہو سکتا تھا، اپوزیشن نے ذاتی مفادات کے لئے ان قوانین کے خلاف پورا زور لگایا، حکومت کا ہر اچھا اقدام اور قانون سازی اپوزیشن کیلئے بری خبر ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو مشیر داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گزشتہ ہفتہ مختلف مثبت سرگرمیاں ہوئیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ملکی مفاد میں قانون سازی بھی کی گئیں جس کا مقصد ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو پورا کرتے ہوئے منی لانڈرنگ اور مالی بد عنوانی کی روک تھام کرنا ہے، ماضی کے حکمران منی لانڈرنگ میں ملوث رہے جس کی وجہ سے انہوں نے منی لانڈرنگ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی قانون بنائے، منی لانڈرنگ ملکی معیشت کے لئے بھی خطرناک ہے جس کے لئے ہمارے پاس صرف دو آپشن تھے کہ ہم نے گرے لسٹ سے نکلنا ہے یا بلیک لسٹ کی جانب جانا ہے، اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے اپنی قیادت کے مفادات کو مقدم رکھا اور عوام کو بھی اس قانون سازی کے حوالے سے گمراہ کیا۔

 انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی اس قانون سازی سے قبل عوام کو اس قانون سازی کے ثمرات سے گاہے بگاہے آگاہ ہے، دونوں جماعتوں کی مفاد پرست قیادت عوام کے سامنے بے نقاب ہوئی اور ہمیں قانون سازی میں کامیابی ملی۔

 وزیر اطلاعات نے کہا کہ جس دن وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھایا تھا اپوزیشن نے اس دن سے ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ حکومت ناکام ہو گئی ہے، آج نوجوانوں اور قوم کے لئے اچھی خبریں آ رہی ہیں اور ملک و قوم کے لئے آنے والی ہر اچھی خبر اپوزیشن کے لئے بری خبر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص جو عدالت سے سزا یافتہ مجرم ہے اور بیماری کا بہانہ کر کے بیرون ملک گیا ہوا ہے، وہ اس اکٹھ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرے گا اور عوام کو بے وقوف بنائے گا۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ملک کی بہتری کے لئے جو بھی بات کرے گا اسے ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن بدعنوانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا تعمیرات کا شعبہ آگے بڑھ رہا ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے جو لوگ ملک کو دیوالیہ ک ےقریب چھوڑ کر گئے تھے انہیں یہ مثبت اور اچھی خبریں بری خبر لگتی ہے، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم نے جس طرح کوویڈ میں کامیابی حاصل کی اور ملکی معیشت کو بھی بحال کیا اس سفر کو جاری رکھا جائے گا، وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں کا محور غریب عوام ہیں، ہماری پالیسیوں کے کچھ ثمرات تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں اور کچھ پہنچنا شروع ہو جائیں گے، اپوزیشن کے مہنگے ترین بجلی گھروں کے منصوبوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے تاکہ عوام کو سستی بجلی اور آسودگی دلائی جا سکے جس کے لئے موجودہ حکومت تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔

مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کے لئے منی لانڈرنگ اور مالی بدعنوانی کی روک تھام کے عوامل سامنے تھے، پوری دنیا کے ماہرین کی مشاورت سے ایف اے ٹی ایف اپنے مطالبات پیش کرتی ہے جس کی روشنی میں متعلقہ ممالک کو اپنے متعلقہ قوانین میں قانون سازی کرنا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ کے معاملات ہوں یا وقف املاک کے امور اور دہشت گردی کی فنانسنگ ہو ان تمام امور کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ہمارے پاس پورا سیکرٹریٹ موجود ہے جس میں غیر ملکی ماہرین بھی شامل ہیں، ہماری کوشش تھی کہ ایسی سفارشات مرتب کی جائیں جس سے ملک گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ کی جانب جائے جبکہ اپوزیشن کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا جس کے لئے انہوں نے 34 شقوں میں ترامیم کا مطالبہ پیش کیا اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح بے نقاب ہو گئے، انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں لاگو ہوا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس میں خامیاں ہیں اور ان خامیوں کی وجہ سے ہی فالودہ اور پاپڑ والوں کے اکاﺅنٹ بے نقاب ہوئے۔

 شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی ریکوائرمنٹ کے مطابق قوانین میں ترمیم کی ضرورت تھی تاکہ منی لانڈرنگ رکے اور اس کا سدباب ہو سکے اور پاکستان تحریک انصاف کا شروع دن سے ہی یہ موقف تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکل کر دنیا میں سرخرو ہونا ہے جبکہ اپوزیشن کا مقصد شہباز شریف اور آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کی ٹی ٹیوں اور جعلی اکاﺅنٹس کیس کے مقدمات بند کروانا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملکی مفاد میں کی جانے والی قانون سازی کی مخالفت کی اور شاہد خاقان عباسی بھی اس ڈیل کے چکر میں تھے کہ ان کے کیس بند ہو جائیں، جس کے لئے انہوں نے ایک پروپیگنڈا مہم بھی چلائی اور ایک پروپیگنڈا ایسا تھا کہ خدا ناخواستہ اس قانون کے ذریعے کسی بھی شخص کو چھ ماہ کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے گا جبکہ یہ شق ان کی طرف سے پیش کئے جانے والے مسودے میں شامل تھی اور ان سب کے دستخط اس مسودے پر موجود ہیں جبکہ حکومت کے بل میں گرفتاری کے اختیار کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے، یہ پروپیگنڈا اپوزیشن نے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے کیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،

شہزاد اکبر نے کہا کہ اس کے برعکس اپوزیشن مطالبہ کر رہی تھی کہ منی لانڈرنگ کو قابل دست اندازی جرم سے نکالا جائے اور اے ایف ٹی ایف نے اس کا مطالبہ کیا تھا، انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کے مختلف ادارے سی ٹی ڈی سی، ایف آئی اے، احتساب بیورو کے ادارے شامل ہیں اور اس حوالے سے 2010ءکے قوانین موجود ہیں لیکن اپوزیشن کا مطالبہ کیا تھا کہ نیب کا نام اس سے نکال دیا جائے اور نیب کے انویسٹی گیشن ایجنسی کے کردار کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ وہ جادو گری تھی جس پر اتنا شور کیا جا رہا تھا اور یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ انہیں عوام سے بہت زیادہ ہمدردی ہیں لیکن اندرونی کہانیاں اس سے مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کھل کر آزادی سے کام کر رہے ہیں، فالودہ اور پاپڑ والوں کے اکاﺅنٹ پکڑے جا رہے ہیں جس کی انہیں تکلیف ہے۔