کریمنل جسٹس سسٹم ،مینٹل ہیلتھ سسٹم کے باہمی ربط کو مزید مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے: آئی جی پی خیبر پختونخوا

185

پشاور، 04دسمبر(اے پی پی): انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم اور مینٹل ہیلتھ سسٹم کے باہمی ربط کو مزید مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ بات انہوں نے جمعہ کو سندھ جوڈیشل اکیڈمی کراچی میں “کریمنل جسٹس سسٹم اور مینٹل ہیلتھ سسٹم میں ربط کو مضبوط بنانے” کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ سیمینار میں آن لائن لیکچر دیتے ہوئے کہی۔ سیمینار کا اہتمام پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی نے سکول آف فارنزک مینٹل ہیلتھ سکاٹ لینڈاور سندھ جوڈیشل اکیڈمی کے اشتراک سے کیا تھا ۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آئی جی پی نے کہا کہ وہ پولیس آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہیں اس لیے وہ اس موضوع کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور کہا کہ جرائم کی روک تھام میں قانون اور میڈیسن کا گہرا رشتہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوں تو جرائم خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

 آئی جی پی نے کہا کہ عام طور پر جرائم کی بنیادی وجوہات جانے بغیر لوگوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے  جس سے نہ صرف جیلوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے بلکہ جرائم کی بیخ کنی کی بجائے اس میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم جرائم کا بغور مطالعہ کر یں تو معلوم ہوتا ہے کہ چاہے دہشت گردی ہو،  بچوں کے ساتھ زیادتی ہو ، یا دیگر روایتی جرائم ان میں ملوث ملزمان مختلف ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان جرائم کا شکار ہونے والے لوگ بھی نفسیاتی مسائل سے دو چار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اردگرد کے حالات بھی ہماری نفسیات پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اس تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، جیل خانہ جات اور ادویات کے شعبوں کا آپس میں قریبی رابطہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں کی ذہنی اور دماغی کیفیت درست ہو تو جرائم میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نفسیاتی مسائل کے شکار لوگ سنگین جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور ملزمان ذہنی بیماریوں کی آڑ میں بڑی سزاﺅں سے بچ جاتے ہیں جس سے جرائم کی روک تھام میں قانون کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور مظلوم کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس میں بھرتی اور مقدمات کی تفتیش کے مراحل میں نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ بھرتی کے لیے بنائی جانی والی کمیٹیوں میں نفسیاتی ماہر کو بطور ممبر شامل کیا جاتا ہے جو پولیس میں بھرتی کے خواہشمند اُمیدواروں کی نفسیاتی تشخیص کے بعد بھرتی کے لیے موزوں ہونے کے بارے میں رائے دیتا ہے۔ اسی طرح تفتیش کے دوران ملزمان کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کے بارے میں ماہر نفسیات کی رائے حاصل کی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان تمام اقدامات کے اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موضوع کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر اس پر باقاعدگی کے ساتھ مباحثے ہونے چاہیں اور یونیورسٹی کی سطح پر اس کو پڑھایا جانا چاہئے۔ آئی جی پی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ادویات کے شعبے کے مابین قریبی رابطوں کی اہمیت پر زور دیا.

آئی جی پی نے کہا کہ ذہنی صحت کے مسائل کو اگر سنجیدگی سے حل کیا جائے تو اس سے ہمارے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں بہتری آئے گی، اور یوں ہم ایک ذمہ دار اور قانون کی پاسداری کرنے والی قوم کی حیثیت سے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار بھر پور انداز میں ادا کرسکیں گے۔

 دو روزہ سمینار میں مختلف سیشن میں پروموشن آف مینٹل ہیلتھ اینڈ سٹریس مینجمنٹ،  امپلیمنٹیشن آف مینٹل ہیلتھ لیجسلیشن، فارنزک مینٹل ہیلتھ ایجوکیشن ،چائلڈ سیکشوئل ابیو ز ،لیگل میڈیکل ایشوز اینڈ پریوینشن کے موضوعات پر ملکی اور بین الاقوامی ماہرین نے اپنے مقالے پیش کئے۔

 سیمینار کے منتظمین نے کریمنل جسٹس سسٹم اور مینٹل ہیلتھ سسٹم پر لیکچر دینے پر آئی جی پی کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ ان کا لیکچر سیمینار کے اغراض ومقاصد کے حصول میں سنگ میل ثابت ہو گا۔