احمد فراز ایک اصول پسند شاعر تھے، کبھی اپنے نظریات اور آدرش سے پیچھے نہیں ہٹے؛ وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز

185

اسلام آباد،12جنوری  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ احمد فراز نے انسانیت کا پیغام دیا اور مظلوم اقوام کے حق میں آواز بلند کی، وہ ایک اصول پسند شاعر تھے، کبھی اپنے نظریات اور آدرش سے پیچھے نہیں ہٹے، انہوں نے اپنی سوچ عوام تک پہنچائی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز اکادمی ادبیات پاکستان اور احمد فراز ٹرسٹ کے زیر اہتمام اردو کے عہد ساز شاعر احمد فراز کی 90 ویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ “احمد فراز قومی ادبی سیمینار” سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ احمد فراز ایک بااصول انسان تھے، وہ کبھی اپنے نظریات اور آدرش سے پیچھے نہیں ہٹے، انہوں نے مظلوم کشمیری اور فلسطینی اقوام کے لئے شاعری کی صورت میں جدوجہد کی،  وہ محبت اور انسانیت کے شاعر تھے، وہ پاکستان کی طرف سے محبت اور دوستی کے سفیر تھے۔

 شبلی فراز نے کہا کہ احمد فراز نے کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے لئے نہ صرف شاعری کے ذریعے جدوجہد کی بلکہ عملی طور پر بھی شریک رہے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے، احمد فراز کا نام عزت اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے، وہ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرا پہلا تعارف احمد فراز ہیں، مجھے ان پر فخر ہے۔ احمد فراز، غالب کی شاعری کو بہت پسند کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ زندگی کی ہر کیفیت کے لئے غالب کا شعر موجود ہے۔

 وفاقی وزیر نے کہا کہ آج جس انداز سے احمد فراز کو خراج عقیدت پیش کیا گیا یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور بحیثیت اولاد یہ میرے لئے فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب سے لگائو رکھنے والے خوش قسمت لوگ ہیں، یہ اپنے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں احمد فراز کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

قبل ازیں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پسند تحریک کے نامور شعراءمیں احمد فراز کی نظم اس فکر و احساس سے ترتیب پاتی ہے جو ہمارے ماضی اور حال سے جڑا ہوا ہے۔ احمد فراز کی غزلیہ شاعری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری سے دلوں کو جوڑنے کا کام لیا۔ احمد فراز زمانے کی پیدہ کردہ ناہمواریوں کے خلاف اور قیام امن کے لئے مستقل لکھتے رہے۔ احمد فراز اپنی غزلوں میں خیالات اور الفاظ کو ایک دوسرے کی طاقت بنا کر سامعین و قارئین کے دلوں کے اندر اترنے کا فن جانتے تھے۔ ان کی شاعری کا کرشمہ ہے کہ وہ آج بھی عوام اور خواص دونوں سطح کے لوگوں میں یکساں مقبول ہیں۔ بلاشہ ان کی شاعری رومان اور مزاحمت کا حسین امتزاج ہے۔

 پروفیسر فتح محمد ملک نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احمد فراز کو اپنی مٹی سے والہانہ محبت تھی، انہوں نے بہت سے ملی ترانے لکھے جو مٹی کی خوشبو اور وطن کی محبت سے مملو ہیں، وہ جس شدت سے محبت کرتے، اسی شدت سے لکھتے تھے، وہ سچے اور کھرے انسان تھے، وہ ادب اور شاعری کو سچائی کا محور سمجھتے تھے لہذا انہوں نے ہمیشہ محبت اور انسانیت کی بات کی اور ظلم و جبر کے خلاف زبردست مزاحمت کی، رومان اور مزاحمت دونوں صورتوں کی شاعری میں احمد فراز نے کمال مہارت سے ندرت اور انفرادیت قائم کی جو انہی کا خاصا ہے۔ احمد فراز اپنی مثالی شاعری کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے ہیں۔

 محمد اظہار الحق نے اپنے خطاب میں احمد فراز کے ابتدائی مجموعوں اور درد آشوب کا ذکر کیا، جب ملکی سیاست میں انحطاط کا زمانہ تھا اور علم احتجاج بلند کرنے والا کوئی نہ تھا، احمد فراز نے اس زمانے میں اردو کو ایسے کمال اشعار عطاءکئے جو انہی کا حصہ ہے۔

تقریب میں محمد حمید شاہد، خواجہ نجم الحسن، اختر عثمان، عائشہ مسعود، ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر روش ندیم اور ڈاکٹر حمیرہ اشفاق نے احمد فراز کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فراز کی شاعری اپنی خوبصورتی اور سچائی سے لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہے گی۔ احمد فراز اپنی لاجواب شاعری کی وجہ سے رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

تقریب کی صدارت پروفیسر فتح محمد ملک اور محمد اظہار الحق نے کی۔ تقریب کے آخر میں احمد فراز مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔