ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کا اجلاس ،  پاک افغان سرحد کے قریب منشیات کی سمگلنگ ، انسداد منشیات فورس کی تقرریوں سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا

74

اسلام آباد۔18جنوری  (اے پی پی):ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کے اجلاس میں پاک افغان سرحد کے قریب منشیات کی سمگلنگ پر قابو پانے، انسداد منشیات فورس میں تقرریوں کی صورتحال، قومی اسمبلی میں رانا ثناءاﷲ کے بنیادی حقوق سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا گیا۔ پیر کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سردار محمد شفیق ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رانا ثناءاﷲ کے کیس میں ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے تھا جس میں معاملات کا صحیح اور قانون کے مطابق جائزہ لیا جا سکے۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ اختیارات کو ملک و قوم کے مفاد میں استعمال کرنا چاہئے، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ پارلیمان قانون سازی کرتی ہے اور اس کے تحت ادارے اپنے ایس او پیز بناتے ہیں۔رانا ثنا اﷲ کے معاملے کی آزادانہ تحقیقات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکریٹری انسداد منشیات اس معاملہ کی تحقیقات خود کریں۔ سینیٹر محمد جاوید عباسی نے تجویز دی کہ ایک خصوصی ذیلی کمیٹی بنائی جائے جو اس معاملے کی نگرانی کرے۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ اس طرح کے معاملے میں کافی شواہد ہوتے ہیں اس پر وضاحت ضروری ہے۔ ملک میں منشیات کی روک تھام کے لئے پولیس و دیگر ایجنسیاں موثر طریقے سے کام نہیں کر رہیں۔ سیکریٹری انسداد منشیات نے کہا کہ رانا ثناءاﷲ کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے اس پر کچھ تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے کہا کہ اس قائمہ کمیٹی نے قانونی پہلوو_¿ں کو موثر اجاگر کیا ہے جو قابل غور ہیں اور وزارت انسداد منشیات کو چاہئے کہ ان کو زیر غو ر لائیں اور ایک غیر جانبدارانہ طریقے سے تحقیقات مکمل کی جائیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سیمی ایزدی کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ ملک کی سرحدوں سے منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ منشیات کا استعمال تعلیمی اداروں تک پھیل چکا ہے۔ منشیات ہر جگہ سے آسانی سے دستیاب ہے۔ ایک وقت آیا تھا کہ منشیات کی سمگلنگ میں نمایاں کمی آئی تھی۔ ااے این ایف کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے۔ بھرتی کے عمل کو جلد مکمل کیا جائے اور فرانزک لیب کی تعداد میں بہتری لائی جائے۔ سیکریٹری انسداد منشیات نے کمیٹی کو بتایا کہ منشیات پر قابو پانے کے حوالے سے 2019ءمیں ایک پالیسی بنائی گئی تھی جس کے چار پہلو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کونسل جس کی صدارت وزیراعظم خود کرتے ہیں، وہ بھی ان معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر بھی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 416 بھرتیوں کیلئے منظوری حاصل کی گئی ہے، بھرتیوں کا عمل رواں مالی سال مکمل ہو جائے گا۔ ادارے کے پاس فنڈز اور سٹاف کی کمی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس ادارے کے ساتھ دیگر 17 ادارے منسلک ہیں، اگر مل کر ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے تو اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ منشیات پر قابو پانے کے حوالے سے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہئے، ادارے اختیارات استعمال کرتے ہوئے منشیات کی لعنت سے ملک کو چھٹکارا دلائیں، کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر ٹی وی پر بھی اشتہار چلائے جا سکتے ہیں اور اسی طرح موثر منصوبہ بندی کے ذریعے بہتری لائی جا سکتی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 17 اداروں کے نمائندوں کو بلانے کیلئے اجازت طلب کی گئی تھی مگر اس کی منظوری نہیں ہوئی۔ جب تک ان تمام اداروں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جائے گا بہتری ممکن نہیں ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں متعلقہ 17 اداروں کو طلب کر کے معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر سیمی ایزدی کے معاملے کو ختم کر دیا اور معاملے کی نزاکت کے حوالے سے دوبارہ ایجنڈے میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اے این ایف میں تقرریوں کے عمل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 120 دن کے اندر گریڈ 1 سے15 تک کی 416 تقرریاں مکمل کر لی جائیں گی۔ تقرریوں کا عمل جاری ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اے این ایف میں ایسے لوگ بھرتی کئے جائیں جو ملک کیلئے قیمتی اثاثہ بن سکیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں منشیات پر قابو پانے کے حوالے سے جو اقدامات اٹھا ئے جا رہے ہیں ۔اس حوالے سے آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹرز لیفنٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، سیمی ایزدی، رانا مقبول احمد، نعمان وزیر خٹک، اورنگزیب خان اور محمد جاوید عباسی کے علاوہ سیکریٹری وزارت انسداد منشیات اور اے این ایف کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔