امریکی صدر جو بائیڈن اس وقت بہت دباؤ میں ہیں، وزیراعظم عمران خان کا ترک ٹی وی کو انٹرویو

17

اسلام آباد۔2اکتوبر  (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان  نے ہفتہ کو ترک ٹی وی ٹی آر ٹی  کو دیئے گئے  انٹرویو کے دوران کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن   اس وقت بہت دباؤ میں  ہیں۔  امریکی صدر سے رابطہ کے حوالہ سے وزیر اعظم نے کہا کہ صدور اور ریاست کے سربراہان کی بات چیت رسمی ہی ہوتی ہے کیونکہ اصل کام تو ان کے نیچے کام کرنے والے لوگ کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صدر بائیڈن پر شدید دبائوہے، کیونکہ ائیرپورٹ پر پریشان کن صورتحال کی وجہ سے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ وہ کیسے پیشن گوئی کرسکتے تھے  انخلا سے دو ہفتے قبل ملک کا صدر بھاگ جائے گا اور افغان فوج دستبردار ہوجائے گی، وہ اس کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی طالبان یہ پیشن گوئی کرسکے۔ اس لیے امریکی عوام میں ائیرپورٹ پر ہونے والی صورتحال اور طالبان کے قبضے کی وجہ سے بہت زیادہ رد عمل سامنے آیا۔ اب وہ شدید تنقید کی زد میں ہیں اسی لیے مجھے ان سے ہمدردی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پچاس ساٹھ سال پر محیط ہیں جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا تھا اورپھر سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کے ساتھ تھا۔ تعلقات میں سرد مہری اور گرمجوشی آتی رہتی ہے۔ میرے خیال میں افغانستان کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ امریکہ اپنا کردار ادا کرے کیونکہ وہ وہاں 20  سال رہے ہیں ساور  اگر وہاں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو یہ 1979 کی تاریخ دہرائی جائے گی جب سوویت یونین وہاں سے چلا گیا اور پھر امریکی بھی روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد افغانستان میں کیا ہوا، قتل و غارت ہوئی جس میں دو لاکھ سے زائد افغان مارے گئے، افغانستان میں مکمل افراتفری کی صورتحال تھی۔ اس لیے سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے لیے اور دیگر ہمسائیوں کیلئے یہ بات اہم ہے کہ افغانستان میں افراتفری سے سب متاثر ہوں گے اور اس صورتحال میں امریکہ کے پاس کیا رہ جائے گا کہ 20  سال بعد اور 2  کھرب ڈالر سے زائد خرچ کرنے کے بعد اور لاکھوں افغانوں کی جانیں ضائع ہونے کے بعد وہاں ایک بار پھر بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ بحران کی صورت میں بین الاقوامی دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوں گی۔ جب سے طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے تو گزشتہ40  دن سے پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں پر سرحدی اور شہری علاقوں میں 24   حملے ہوئے ہیں۔