پاکستانی چاول کی درآمد پر 5 سال کی ٹیکس چھوٹ دینے کا فیصلہ وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ دو ملاقاتوں کا نتیجہ ہے؛صدرآزربائیجان الہام علیوف

32

باکو،26نومبر  (اے پی پی):آزربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا ہے کہ پاکستانی چاول کی آزربائیجان درآمد پر پانچ سال کی ٹیکس چھوٹ کا فیصلہ وزیراعظم محمد شہبازشریف کے ساتھ ہونے والی دو ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت کا نتیجہ ہے جب ہمارے برادر ملک سے ہمیں اعلی معیار کا چاول مل سکتا ہے تو ہم کسی اور جگہ سے چاول کیوں درآمد کریں۔ گوادر بندرگارہ خطے کو جوڑنے کا بہت بڑا موقع فراہم کرتی ہے،اس بندرگاہ کو ہمارے انفراسٹرکچر سے جوڑنا کوئی بڑی بات نہیں، خطے کو باہم ملانے سے تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے لیکن اس کے لئے تمام ممالک کو مل کر مخلصانہ تعاون کی بنیاد رکھنا ہوگی۔

 ان خیالات کا اظہار صدرآزربائیجان الہام علیوف نے “وسطی راہداری کے ساتھ : جیوپالیٹکس، سکیورٹی اینڈ انوائرنمنٹ” کے موضوع پر منعقدہ عالمی سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ آزربائیجان کے صدر نے وزیراعظم شہبازشریف اور پاکستان کو بھائی اور قریبی دوست قرار دیا۔

 اس موقع پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینٹر فار گلوبل اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز (سی جی ایس ایس) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد تیمور اکرم کے پاکستانی چاول کی درآمد پر آئندہ پانچ سال تک آزربائیجان کی جانب سے ہر طرح کے ٹیکس استثنٰی اور جنوبی ووسطی ایشیاءکو جوڑنے کے حوالے سے سوال پر آزربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میری دوبار وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سے ملاقات ہوئی ہے،ہم نے مجموعی طور پر دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا ہے، ہم نے بات کی ہے کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان موجود دوستی، بھائی چارے اور تعاون کو کیسے وسعت دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ہم پاکستان کے شکرگزار ہیں کہ اس نے ہماری مسلسل حمایت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ آزربائیجان اور رومانیہ کے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں قبضے اور جنگ کے دوران اور پھر ہمارے خطے کی آزادی کے موقع پر پاکستان نے ہمارا مسلسل ساتھ دیا ہے، آزربائیجان کے عوام پاکستان کی جانب سے کی جانے والی اس سیاسی واخلاقی حمایت کی بے پناہ قدر کرتے ہیں۔

آزربائیجان کے صدر نے کہاکہ میری وزیراعظم شہبازشریف سے بات چیت ہوئی ہے کہ کیسے ہم دونوں ممالک کے درمیان معاشی وتجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔ اس میں مزید اضافہ کیسے اور کس طرح کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سے چاول کی درآمد پر خصوصی ریگولیشن وزیراعظم شہبازشریف سے ہونے والی اسی بات چیت کی جھلک ہے۔ ہم نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو تیز کرنے اور بڑھانے کا جو فیصلہ کیا تھا  یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ میری وزیراعظم شہبازشریف سے بات چیت ہوئی ہے کہ کون کون سی اشیا ہم ایک دوسرے کے ممالک کو بھجواسکتے ہیں۔ جب برادر ملک پاکستان سے ہمیں انتہائی اعلی معیار کا چاول مل سکتا ہے تو پھر ہم کسی اور جگہ سے چاول کیوں خریدیں؟ یہ فیصلہ ہمارے برادرانہ تعلقات کی جھلک ہے اور ہمارے درمیان ہونے والی بات چیت کاواضح نتیجہ ہے۔

 آزربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہاکہ کورونا وبا کے بعد عالمی سطح پر سفرکے سلسلے کے دوبارہ آغاز کے بعد سے میں نے بہت وقت وسط ایشیائی ریاستوں کے دوروں میں صرف کیا ہے۔ اپریل کے بعد سے میں نے ازبکستان کے تین سرکاری دورے کئے ہیںاور عالمی تقاریب میں شرکت کی ہے۔ میں کرغستان گیا ہوں۔ قزاخستان کے صدر سرکاری دورے پر اگست میں یہاں تشریف لاچکے ہیں۔ اس سے پہلے میں ترکمانستان گیا ہوں اور اب تاجکستان کے دورے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ مختلف عالمی ایونٹس کے موقع پر دیگر سربراہان سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ میں نے سکیورٹی کے مسئلے پر بات کی ہے، یہ مسئلہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ دوطرفہ اور عالمی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس معاملے میں کیسے مل کر کام کرسکتے ہیں، دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ عالمی قوانین کی موجودگی میں ایک مضبوط آرمی اور اچھے اتحادی میسر ہوں ، تب ہی آج کی دنیا میں آپ خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔

صدر الہام علیوف نے کہاکہ علاقائی سلامتی کے بہت امکانات ہیں جس پر عمل کرکے ہم سلامتی کو یقینی  بنا سکتے ہیں، یہ کام ہم سب مل کر ہی کرسکتے ہیں، اس کے بہت امکانات ہیںکہ ہم یہ ہدف حاصل کرلیں۔ انہوں نے کہاکہ آزربائیجان میں انفراسٹرکچر کے منصوبے تیار ہیں ، ملک کے ایک سے دوسرے کونے تک ریل اور سڑک کے تمام منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ ہوائی اڈے، بندرگاہیں سب تیار ہیں۔ خطے کے تمام ممالک میں یہی انتظام ہونا چاہئے تاکہ راہداری قائم کرنے کا خواب پورا ہوسکے۔ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے مثبت امکانات نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چین، کرغستان اور ازبکستان میں ریل روڈ کی تعمیر پر حال ہی میں معاہدہ ہوا ہے جو بہت عرصے سے رکا ہوا تھا۔ ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، گوادر بندرگارہ خطے کو جوڑنے کا بہت بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس بندرگاہ کو ہمارے انفراسٹرکچر سے جوڑنا کوئی بڑی بات نہیں۔ ٹریڈ ٹیرف کے مسئلے کو ہم حل کرسکتے ہیں۔ قواعد وضوابط اور قوانین پر تعاون ہوسکتا ہے۔ بس ایک ٹیم ورک کی ضرورت ہے۔ مثال کے طورپر ہم نے آزربائیجان ترکی اور قزاخستان میں فعال تعاون کے لئے فارمیٹ تیار کیا ہے۔ خارجہ اور ٹرانسپورٹ کے وزرا کا پہلا اجلاس کئی ماہ پہلے منعقد ہوچکا ہے۔ اب ہمارے پڑوسی جارجیا نے اب دوسرے اجلاس کی دعوت دی ہے۔ اب یہ چار ممالک کا اجلاس ہوگا کیونکہ ہم سب آپس میں باہم ملے ہوئے ہیں،اس لئے ہم ایک پالیسی اختیار کریں گے۔ اگر پالیسی ایک نہیں ہوگی تو کوئی بھی اس کے ثمرات حاصل نہیں کرپائے گا۔

 آزربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہاکہ ہم نے اپنے ملک میں ٹرانسپورٹ اداروں کو یکجا کرکے کارپوریٹ مینجمنٹ لے آئے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہم نے غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے  وَن۔ ونڈو  بنادی ہے۔ اب بیورکریٹک رکاوٹیں کم سے کم آئیں گی۔جس سے دیگر ممالک کی کمپنیوں کے لئے راستہ استعمال کرنا آسان ہوگیا ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ آرمینیا کے پاس جغرافیائی یا کوئی اور اہلیت نہیں کہ وہ اس منصوبے کو متاثر کرسکے۔ آرمینیا ایک لینڈ لاک ملک ہے، ان کا ٹرانسپورٹ کا نظام فرسودہ اور پرانا ہوچکا ہے، ہم روس سے بھی بات چیت کررہے ہیں، ایران بھی خطے کو جوڑنے کے منصوبے کے حق میں ہے،ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ایک پلیٹ فارم بنائیں اور باہمی مفاد میں مخلصانہ تعاون کی بنیاد رکھ دیں تو تمام فریقین اس میں شامل ہوں گے۔